E-Cigarette Kya Hai Aur Iske Istemal Ka Kya Hukum Hai?

 

ای سگریٹ (E Cigarette) کیا ہے اور اس کے استعمال کا کیا حکم ہے ؟

مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری   

فتوی نمبر:Pin-7552

تاریخ اجراء: 08رجب المرجب1446ھ/09جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ای سگریٹ کیا ہوتی ہے؟ اور اس کے استعمال کا شرعی حکم کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ای سگریٹ سےمراد ’’الیکٹرانک سگریٹ(Electronic Cigarette)‘‘ہے، جو سگریٹ نوشی کا متبادل ذریعہ ہے۔یہ عموماً تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے:بیٹری(Batteryایٹمائزر Atomizer(ہیٹنگ ایلیمنٹHeating Element) اور محلول کے لیے کارٹریج (Cartridge اس میں کسی شعلے یا تمباکو کی حاجت نہیں ہوتی۔ اسے استعمال کرنے کو ’’ویپنگ(Vaping)‘‘  کہا جاتا ہے۔ یہ دو طرح کی ہوتی ہے:آٹو میٹک (Automatic)اور مینول(Manualآٹو میٹک ای سگریٹ استعمال کرنے والا جب کش لگاتا ہے، تو فوراً ہی سینسر (Sencor) ایٹمائزر کو کَرنٹ فراہم کرتا ہے، جس سے وہ گرم ہو کر محلول کو بخارات میں بدلتا ہے اور بخارات سانس کے ساتھ انسان کے منہ میں داخل ہو جاتے ہیں اور مینول ای سگریٹ کو بٹن دبا کر کش لگایا جاتا ہے۔ اس کے کارٹریج میں عمومی طور پہ نکوٹین(Nicotine)، گلیسرین (Glycerine)اور مختلف پھلوں کے فلیورز (Flavours) موجود ہوتے ہیں۔

عام سگریٹ میں نکوٹین نامی مادہ  تمباکو میں ہوتا ہے، جو تمباکو کے جلنے سے دھویں کے ساتھ انسان کے اندر داخل ہوتا ہے،جبکہ ای سگریٹ میں نکوٹین کے محلول کو بخارات میں تبدیل کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر ان میں بعض کو رِی فِل (Refill) کیا جا سکتا ہے اور بعض ڈسپوزبل (Disposable) ہوتی ہیں۔ اس کے کارٹریج  میں نکوٹین  اور گلیسرین کے علاوہ کوئی  اور کیمیکل  بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ نیز ایک جائزے کے مطابق مارکیٹ میں سینکڑوں برانڈز (Brands) کے الیکٹرانک سگریٹ دستیاب ہیں، جن کے فلیورز کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔(یہ تفصیل ویکیپیڈیا، مختلف ویب سائٹس اوردیگر ذرائع سے حاصل کی گئی ہے)۔

ای سگریٹ (E Cigarette) کا شرعی حکم:

   (۱)یہ  سگریٹ اگر ایسے لیکوڈ (Liquid) یا مواد پر مشتمل ہو، جو عقل و حواس میں فتور پیدا کرے اور نشہ دے، تو اس کا استعمال ناجائز و حرام اور گناہ ہے کہ حدیث پاک میں نشہ اور فتور پیدا کرنے والی ہر چیز کے استعمال سے منع فرما دیا گیا ہے۔

   (۲)اگر اس کے ذریعے ایسا فلیور استعمال کیا گیا، جس سے منہ میں قابلِ نفرت بُو پیدا ہو جائے، تو اس کی ویپنگ مکروہ و خلافِ اولیٰ ہو گی اور پھر جب تک منہ سے بو آ رہی ہو، مسجد میں داخل ہونا اور (وقت میں گنجائش ہو تو) نماز پڑھنا منع ہو گا، لہذا مسجدمیں داخل ہونے اور نماز پڑھنے سے قبل منہ کو خوب اچھی طرح صاف کرنا ہو گا۔ اس صورت کی نظیر کچا لہسن اور پیاز استعمال کرنا ہے۔

   (۳) اگر یہ سگریٹ نشہ آور مواد سے خالی ہو اور اس کی وجہ سے منہ میں بو بھی  پیدا نہ ہو، تو اسے استعمال کرنا مباح (یعنی نہ ثواب اور نہ گناہ) ہے،  لیکن دوسری جانب اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں اور یہ تیزی سے گناہوں کی طرف لے جانے کا سبب بھی ہے، تو  اباحت کی اس ایک خاص صورت کے باوجود اس کے مفاسد و خرابیوں کو ہرگز قطع نظر نہیں کیا جا سکتا ، اسی لیے عقل و شعور رکھنے والا کوئی بھی شخص اس کے قریب ہرگز نہیں جائے گااور شریعت مطہرہ کی نظر میں بھی اس کی پذیرائی نہیں ہے، بلکہ بالتاکید بچنے کا کہا جائے گا۔ذیل میں اس کی چند خرابیاں بھی ذکر کی جا رہی ہیں۔

ای سگریٹ (E Cigarette)کےمفاسد پر طائرانہ نظر

نکوٹین کا عادی بن جانا:

   ابتدا میں کئی جگہ ای سگریٹ کی مارکیٹنگ  اس طرح کی گئی تھی کہ یہ تمباکو نوشی سے نجات حاصل کرنے کا بہتر ذریعہ ہے کہ اس میں نکوٹین کی ڈوز (Dose) کم  کر کے بھی استعمال کر سکتے ہیں، یوں رفتہ رفتہ ڈوز کی کمی تمباکو نوشی سے چھٹکارے کا سبب ہے، لیکن عام مشاہدہ ہے کہ لوگ تمباکو نوشی سے چھٹکارا پانے کی بجائے اس کے ذریعے نکوٹین کے عادی بن گئے ہیں، بلکہ ایسے مرد و خواتین حتی کہ کم عمر لڑکے لڑکیاں بھی جو پہلے تمباکو نوشی نہیں کرتے تھے، بکثرت اس میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ نکوٹین کا مسلسل استعمال تباہ کن اثرات رکھتا ہے۔

انسانی صحت کے لیے میٹھا زہر:

   اس کا استعمال بظاہراچھا لگتا ہے، کہ اس کے مختلف فلیورز ہیں اور کیمیکل کے ذریعے منہ میں پھلوں وغیرہ کا ذائقہ محسوس کیا جا سکتا ہے، پھر عام سگریٹ کے مقابلے میں اس کا دھواں زیادہ ہونے کی وجہ سے نوعمر افراد کے لیے کشش کا باعث بنتا ہے اوران وجوہات کی بناء پر بطورِ فیشن بھی اس کا  رواج چل پڑا ہے، جبکہ ویپنگ پھیپھڑوں کے ساتھ دل، گردوں ، خون کی رگوں میں نقصان  اور دماغ پر منفی اثرات مرتب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، گویا یہ انسانی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔

نشہ کی طرف لے جانے کا آسان ذریعہ:

   اس کے کارٹریج  میں نکوٹین وغیرہ کی جگہ نشہ آور مواد بھی ڈالا جا سکتا ہے اور لوگ اس آلے کا استعمال کرتے ہوئے بآسانی نشہ کی طرف چلے جاتے ہیں، جبکہ نشہ تو حرام اور گناہ ہے اور جو چیز حرام کی طرف جانے کا ذریعہ بنے، شریعت مطہرہ ا س سے  منع ہی کرتی ہے۔

بےحیائی کو فروغ دینے  میں اہم کردار:

   معاشرے میں باقاعدہ اس کے پب(Pub) اور بار (Bar)بنے ہوئے ہیں،جہاں اسے استعمال کرنے کی سہولیات موجود ہیں، ان میں کئی  جگہ لڑکے لڑکیاں جمع ہو کر ویپنگ کرتے اور گپ شپ لگاتے ہیں، جس سے نہ  صرف بے حیائی و فحاشی جیسے ناسور کو فروغ مل رہاہے، بلکہ اس کے ضمن میں اور بھی متعدد شرعی و معاشرتی خرابیاں جنم لے رہی ہیں اور جرائم کے بنیادی اسباب میں اس کا بھی اہم کردار ہے۔

   پھر تعلیمی اداروں میں بھی اس کا رجحان بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، گھر سے تعلیم کے نام پر نکلنے والوں کی اچھی خاصی تعداد بُری صحبت کی وجہ سے   اس خرابی کا شکار ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ تیزی سےجاری ہے۔ طلباء و طالبات ابتدا میں تو شوق و تفریح کی خاطر استعمال کرتے ہیں، پھراس کی لَت پڑ جاتی ہے اور آگے چل کریہی بُری عادت انہیں نشے کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ تعلیمی اداروں سے موصول ہونے والی رپورٹس انتہائی خطرناک ہیں،جو بالیقین بڑی خرابی کا پیش خیمہ ہے، اگر اس پر کنٹرول نہ کیا گیا، تو قوم و ملت کو تعمیر کرنے والے خود بڑی  تباہی کا نشانہ بن جائیں گے۔

لا یعنی کاموں میں  مال خرچ کرنا:

   جوں جوں اس کے استعمال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کی مانگ بھی بڑھتی جا رہی ہے اور مارکیٹ میں نِت نئے برینڈز (Brands) اور فلیورز متعارف کروائے جا رہے ہیں، جو بیش قیمت بھی ہوتے ہیں اور شوقین حضرات ان پر بے دریغ اپنا پیسہ خرچ کرتے ہیں، اسلام تو ہمیں ایسے کاموں سے بھی بچنے کی تعلیم دیتا  ہے، جس کا دینی و دنیاوی کوئی نفع نہ ہو، جبکہ یہاں دو قدم آگے اپنےہی ہاتھوں نقصان حاصل کیا جا رہا ہے، جو  شریعت مطہرہ کی نظر میں بلاشبہ قابلِ ملامت ہے۔

قانون کی نظر میں نہایت مذموم عمل:

   کئی نامور و ترقی یافتہ ممالک میں نقصانات کے پیشِ نظر اسے خریدنے بیچنے اور استعمال پر سخت پابندی عائد کر دی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری سزائیں مقرر کی گئی ہیں اور ہمارے ہاں (پاکستان میں) بھی یہ مذموم ہے اور  اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

   مذکورہ تفصیل سے واضح ہوا کہ ای سگریٹ کواستعمال کرنا،اس کو رواج دینا، بلاشبہ لایعنی کاموں میں مال اڑانے، معاشرتی نقصانات کو جنم دینے اور نسلوں کو تباہ  کرنے کے مترادف ہے، لہذا اس سے بچنے اور دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔

جزئیات:

   دین اسلام میں لا یعنی کاموں کا ترک مطلوب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من حسن إسلام المرء تركه ما لا یعنیه ‘‘ ترجمہ : آدمی کے اسلام کے حسن سے ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں کو ترک کرے۔(جامع  الترمذی،ابواب الزھد،  جلد2،  صفحہ 58، مطبوعہ  کراچی)

   شریعت اسلامیہ نے نقصان و ضرر برداشت کرنے اور کسی کو نقصان و ضرر پہنچانے، دونوں سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام‘‘ ترجمہ: اسلام میں نہ ضرر (نقصان) ہے اور نہ ضرر دینا۔(المعجم الاوسط، جلد 5، صفحہ 238، رقم الحدیث 5193، مطبوعہ قاھرہ)

   قرآن کریم ہمیں حیاء کا درس دیتا ہے۔ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ترجمہ کنزالایمان :’’ مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے، بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے، اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے ۔‘‘( پارہ 18، سورۃ النور، آیت 30،31)

   مردوں عورتوں کے اختلاط کے متعلق حضرت حمزہ بن ابی اسید انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقول: وھو خارج من المسجد فاختلط الرجال مع النساء فی الطریق، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للنساء : استأخرن، فإنہ لیس لکن أن تحققن الطریق علیکن بحافات الطریق فکانت المرأۃ تلتصق بالجدار حتی إن ثوبها لیتعلق بالجدار من لصوقها بہ‘‘ ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا آپ مسجد سے نکل رہے تھے، تو راستےمیں مردوں  اور عورتوں کا اختلاط ہو گیا، تو عورتوں سے فرمایا: تم پیچھے رہو تمہیں یہ درست نہیں کہ بیچ راستے میں چلو، تم راستے  کے کنارے اختیار کرو،پھرعورت دیواروں سے مل کر چلتی تھی، حتی کہ اس کا کپڑا دیوار سےاُلجھتا تھا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 375، مطبوعہ  لاھور)

   ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔سنن ابی داؤد میں ہے:’’نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کل مسکرٍ و مفتر‘‘ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نشہ آور اور اعضاء کو ڈھیلا کرنے والی چیز سے منع فرمایا۔    (سنن ابو داؤد، کتاب الاشربہ، باب نھی عن السکر، جلد 2 ، ص163 ، مطبوعہ  لاھور)

   تمباکو نوشی  کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’رہا حقہ نوشی کا، تمباکو نوشی کا مسئلہ، تو اگر وہ عقل اور حواس میں فتور پیدا کرے، جیسا کہ رمضان شریف میں افطار کے وقت ہندوستان کے جاہلوں کا معمول ہے، تو یہ بطورِ خود حرام ہے۔ سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک حدیث کی وجہ سے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ہر نشہ اور فتور پیدا کرنے والی چیز کا استعمال ممنوع ہے۔ ۔۔ورنہ اگر اسے معمول نہ بنائیں، لیکن قابلِ نفرت بدبو پیدا ہو جائے، تو مکروہ تنزیہہ اور خلافِ اولیٰ ہے، جیسے کچا لہسن اور پیاز استعمال کرنا اور اور اگر اس سے بھی خالی ہو یعنی بدبو وغیرہ نہ ہو، تو مباح ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 299 تا 300، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فتاوی امجدیہ میں ہے:’’ کچا لہسن، پیاز کھانا مکروہ ہے اور کھانے کے بعد جب تک بو باقی ہے، مسجد میں جانا منع ہے اور اگر وقت میں گنجائش ہو، تو نماز میں بھی تاخیر کرے، ورنہ بدرجہ مجبوری پڑھ لے۔ یوہیں جب تک بو باقی ہو، تلاوت بھی مکروہ ہے اور وجہ سب کی یہ ہے کہ اس سے فرشتوں کو ایذا ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے:’’فان الملائکۃ تتاذی مما یتاذیٰ بہ الانس‘‘ اور پختہ لہسن پیاز کھانے میں حرج نہیں کہ اس کے کھانے سے بدبو نہیں پیدا ہوتی اور ہنگ میں چونکہ بدبو ہوتی ہے، لہذا یہ بھی کچے لہسن کے حکم میں ہے۔‘‘(فتاوی امجدیہ، حصہ 4، صفحہ149 تا 150، مکتبہ رضویہ، آرام باغ، کراچی)

   مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ بیڑی، سگریٹ اور حقہ پی کر مسجد میں داخل ہونے کے متعلق فرماتے ہیں: خوب منہ صاف کرنے کے بعد مسجد میں داخل ہو، اس لیے کہ بیڑی اور سگریٹ وغیرہ کی بو جب تک کہ باقی ہو، مسجد میں داخل ہونا، جائز نہیں۔‘‘(فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 535، شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم