
فتوی نمبر:WAT-3448
تاریخ اجراء: 03رجب المرجب 1446ھ/04جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر مرد اس طرح سجدہ کرے جس طرح سے عورتیں اپنی کلائیاں زمین پر بچھا کر کرتی ہیں توکیا اس طرح مرد کی نماز ہوجائے گی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عندالشرع مرد کا عورتوں کی طرح ،اپنی کلائیاں زمین پر بچھا کرسجدہ کرنا مکروہ تحریمی ،ناجائز وگناہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدے میں کلائیاں بچھانے سے سختی سے منع فرمایا ہے، لہذا اگر اسی اندازسے ساراسجدہ مکمل کیایاکم ازکم ایک رکن کی مقدار یعنی تین مرتبہ " سبحان اللہ " کہے جانے کے وقت کےبرابر بھول کرسجدے میں کلائیاں بچھائی رکھیں تو آخر میں سجدہ سہو کرنا لازم ہے اور اگر آخر میں سجدہ سہو نہ کیا یا بلاعذر شرعی جان بوجھ کراسی اندازمیں سجدہ کیایاکم ازکم ایک رکن کی مقدار کلائیاں بچھائی رکھیں تو ان دونوں صورتوں میں نماز مکروہ تحریمی ہو گی، جسےدوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔
نیزیہ بھی یادر ہے کہ اگر سجدے میں عورتوں کی طرح صرف پاؤں لگائے لیکن دونوں پاؤں کی کسی ایک انگلی کا پیٹ بھی زمین پر نہ لگایا تو سجدہ ہی ادا نہ ہوا اورجب سجدہ ادا نہ ہوگا تو نمازہی نہیں ہوگی کیونکہ نماز میں مرد کےلئے سجدے میں دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں میں سے کم از کم ایک انگلی کا پیٹ لگانا فرض ہے اور دونوں پاؤں کی تین تین انگلیاں کے پیٹ لگانا واجب ہے اور دسوں انگلیوں کے پیٹ لگانا سنت ہے ۔
صحیح البخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے”عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:«اعتدلوا في السجود، ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب“ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سجدوں میں اعتدال سے کام لواور تم میں سے کوئی اپنی کلائیاں کتے کے بچھانے کی طرح نہ بچھائے۔ (صحیح البخاری،رقم الحدیث 822،جلد1،صفحہ164،مطبوعہ بیروت)
تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے”(وافتراش) الرجل (ذراعيه) للنهي“ترجمہ:اور مرد کا اپنی کلائیوں کو بچھانا مکروہ ہےحدیث میں اس کی ممانعت کی وجہ سے۔
اس عبارت کے تحت" ردالمحتار "میں ہے”أي بسطهما في حالة السجود، وقيد بالرجل اتباعا للحديث المار آنفا ولأن المرأة تفترش. قال في البحر: قيل وإنما نهى عن ذلك لأنها صفة الكسلان والتهاون بحاله مع ما فيه من التشبه بالسباع والكلاب. والظاهر أنها تحريمية للنهي المذكور من غير صارف“ترجمہ:یعنی سجدے کی حالت میں کلائیوں کو بچھانا مکروہ ہے۔اور مرد کی قید لگائی ہے اس حدیث کی اتباع کی وجہ سے جو ابھی گزری ہےکیونکہ عورت کلائیوں کو بچھائے گی۔بحر میں فرمایا:کہا گیا ہے کہ اس سے منع اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ اس حالت میں سستی اور کاہلی کی صفت ہے ،ساتھ ہی اس میں درندوں اور کتے سے مشابہت بھی ہے۔اور ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ نہی کو پھیرنے والا نہ ہونے کی وجہ سے یہ مکروہ تحریمی ہے ۔(تنویر الابصارمع الدرالمختاروردالمحتار، کتاب الصلاۃ،جلد1،صفحہ 644،دار الفکر، بیروت)
حاشیہ طحطاوی علی المراقی میں ہے” أما وضع القدم علی الأرض فی الصلاۃ حال السجدۃ ففرض فلو وضع إحداھما دون الأخری تجوز صلاتہ، کما لو قام علی قدم واحد۔۔۔ و یکفی وضع إصبع واحدۃ و فی الفتح عن الوجیز، وضع القدمین فرض فإن وضع إحداھما دون الأخری جاز و یکرہ فإن وضع ظاھر قدمیہ، أو رؤوس الأصابع لا یصح لعدم الإعتماد علی شیٔ من رجلیہ و ما لا یتوصل للفرض إلا بہ فھو فرض و ھٰذا مما یجب التنبہ لہ، و أکثر الناس عنہ غافلون“ترجمہ: نماز میں سجدے کی حالت میں زمین پر پاؤں کا رکھنا فرض ہے، اگر کسی نے ایک پاؤں رکھا دوسرا نہیں رکھا تو اس کی نماز جائز ہے، جیسے کہ کوئی ایک پاؤں پر کھڑا ہو، اور ایک انگلی کا رکھنا بھی کفایت کرتا ہے، فتح القدیر میں وجیز کے حوالے سے ہے کہ قدموں کا رکھنا فرض ہے اگر کسی نے ایک پاؤں رکھا دوسرا نہیں رکھا تو جائز ہے اور مکروہ ہے، اور اگر کسی نے قدم کی پشت یا انگلیوں کے سرے زمین پر رکھے تو نمازصحیح نہیں ہوگی کیونکہ اس میں نمازی کے پاؤں میں سے کسی چیز کا زمین پر بچھانا نہیں ہے، اور وہ چیز جس کے بغیر فرض تک نہ پہنچا جا سکے وہ بھی فرض ہوتی ہے، یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر تنبیہ واجب ہے اور اکثر لوگ اس سے غافل ہیں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ص 230،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
بہار شریعت میں ہے"سجدہ میں دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا سنت ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا واجب۔"(بہار شریعت ، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 530، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم