
شوال میں عمرہ کرنے پر حج کی فرضیت کا حکم
سوال: ماہ شوال میں ہم مدینہ شریف سے نمازعیدالفطرپڑھ کرعمرہ کی نیت سے احرام باندھ کرمکہ شریف روانہ ہوئے اورعمرہ اداکرنے کے بعددوچاردن کے بعدمکہ شریف سے اپنے وطن پاکستان روانہ ہوئے۔ کچھ حضرات کاکہناہے کہ جس نے پہلے فرض حج اداکرلیاہو ، وہ توشوال میں مکہ شریف جاکراپنے وطن واپس آسکتاہے ، لیکن جس نے ابھی فرض حج ادانہیں کیا ، وہ اگرماہ شوال میں مکہ شریف کی حدودمیں داخل ہوجائے ، تواب بغیرحج کیے واپس نہیں آسکتا ۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیایہ بات درست ہے کہ جس نے فرض حج ادانہیں کیا ، وہ شوال کے مہینے میں مکہ شریف گیا ، تواب بغیرحج کیے واپس نہیں پلٹ سکتا؟
پسند نہ آئی تو واپس کردیں گے، اس شرط پر خریدنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو بسا اوقات چیز پسند نہیں آرہی ہوتی یا خدشہ ہوتا ہے کہ گھر والوں کو پسند آئے گی یا نہیں اس لئے کہہ دیتے ہیں کہ اگر پسند نہیں آئی تو واپس کر دیں گے۔ اس بارے میں کیاحکم ہے ؟
وطن اقامت، محض نیت ِ سفر سے نہیں، بلکہ بالفعل سفر سے باطل ہوتا ہے
سوال: زید حیدرآباد سے کراچی بیس دن کے لیے آیا ، بارہویں دن اس کو معلوم ہوا کہ کل چھٹی ہے، لہٰذا اس نے ارادہ کرلیا کہ کل واپس حیدرآباد چلا جاؤں گا۔ اب بارہویں دن جب سے واپسی کی نیت کی ہے تب سے لے کر تیرہویں دن واپس جانے تک یہ نماز قصر پڑھے گا یا پوری؟
نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت ملانا بھول گئے، تو کیا حکم ہے ؟
سوال: جن رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے، اگر ان میں سورت ملانا بھول گئے اور رکوع میں چلے گئے، تو یاد آنے پر واپس لوٹنے کا حکم ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ (1)یہ واپس لوٹنا کس درجے کا حکم ہے ؟ اگر یاد آنے کے باوجود واپس نہیں لوٹتے، تو کیا سجدہ سہو کافی ہو جائے گا؟ (2) رکوع فرض اور سورت ملانا واجب ہے ، تو یہاں فرض سے واجب کی طرف لوٹنے کا کیوں حکم ہے ؟
اس شرط پر موبائل بیچنا کہ ایک ہفتے بعد واپس خرید لوں گا ، کیسا ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ میں موبائل کی خرید وفروخت کا کام کرتا ہوں۔ بعض اوقات کوئی کسٹمر آتا ہے اور مجبوری کی وجہ سے موبائل بیچتا ہے، لیکن وہ بیچنا نہیں چاہتا۔اس لیے وہ میرے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کرتا ہے کہ آپ موبائل مجھ سے خرید کر ایک ہفتے کےلیے اپنے پاس رکھ لو۔ اگر میں ایک ہفتے تک واپس آگیا، تو کچھ اضافی رقم دے کر آپ سے موبائل واپس لے لوں گااور یہ اضافی رقم طے ہو جاتی ہے کہ دو ہزار یا تین ہزار اضافی رقم ہوگی اور اگر نہ آیا تو آپ کی مرضی، چاہے آپ موبائل بیچیں، یا خود استعمال کریں۔ اس کے بعد دونوں فریق اس معاہدے کے پابند ہوتے ہیں، اگر بالفرض مجھے کوئی دوسرا کسٹمر آ کر دس ہزار منافع کی بھی آفر کرتا ہے، تو میں وہ قبول نہیں کر سکتا ، بلکہ موبائل کےمالک کو ہی موبائل واپس کرنےکا پابند ہوتا ہوں اور اس سے نفع بھی وہی لوں گا جو ہمارا آپس میں طے ہو چکا ہو۔ مثال کے طور پر میں نے اس سے موبائل پچیس ہزار کا لیا ہو تو ہفتے بعد اس کو اٹھائیس ہزار کا بیچ دوں گا۔میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خرید وفروخت کرنا شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟
کیا نیک بندوں کا وسیلہ جائز ہے یا شرک ہے؟
جواب: مانگنا۔چنانچہ طبرانی کبیر میں ہے:’’فلما فرغ دخل رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: فاضطجع فيه، ثم قال: « اللہ الذي يحيي ويميت وهو حي لا يموت، اغفر لأمي فاط...
طواف زیارت کے بعد مخصوص ایام شروع ہوجائیں تو!
جواب: واپس جا کر سعی کرلی ، تو ا س کا واجب ادا ہو جائے گا ، لیکن خیال رہے! بلا عذرِ شرعی سعی کا ترک گناہ اور دَم لازم ہونے کا سبب ہے۔ یہاں ترکِ سعی کا تح...
سوال: میر ا نام ۔۔ ۔۔۔۔۔ہے ،میرے شوہر کا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔میرے شوہر چرس وغیرہ کا نشہ کرتے تھے۔گھر سے چلے جاتے ،پھر واپس آجاتے ،اب 2009ء سے گئے ہیں اور واپس نہیں آئے ،ان کی زندگی یا موت کی کوئی خبر نہیں،میرے شوہر کی تاریخِ پیدائش 01-01-1958ہے ۔اوراسلامی تاریخ 10جمادی الاُخری 1377ھ ہے ،اور اسلامی تاریخ کے حساب سے ان کی عمر 66سال ہے ۔ ان کے والدین ان کی زندگی ہی میں وفات پاگئے تھے،ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے ،ورثاء میں ،بیوی تین بیٹیاں،دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ،میرے شوہر کے ترکےمیں ایک گھر ہے ،اس گھر کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟
چلتے کاروبار میں فی پیس کے حساب سے نفع طے کرنے کا حکم اور اس کا متبادل جائز طریقہ
سوال: زید کی ایک گارمنٹس فیکٹری (Garments Factory)ہے جس میں اس کا تقریباً دس ملین ریال (Ten million riyals) کا سرمایہ (Capital)لگا ہوا ہے۔ زید،بکر نامی انویسٹر (Investor) سے دولاکھ ریال بطور انویسٹمنٹ (Investment) لیتا ہے۔ دونوں کے درمیان نفع کے متعلق یہ طے ہوتا ہے کہ فیکٹری میں بننے والے ہر اوکے پیس(Perfect Piece) پر بکر کو دو ریال نفع ملے گااور جو پیس (Piece)ریجیکٹ(Reject) ہوجائیں گے ان پر کچھ بھی نفع نہیں ملے گا جبکہ نقصان کے متعلق دونوں کے درمیان کچھ طے نہیں ہوا۔ یہ بھی طے ہوا ہے کہ جب تک یہ انویسٹمنٹ(Investment) زید کے پاس رہے گی اسی طرح ڈیل چلتی رہے گی ۔ سال یا دو سال بعد جب بھی انویسٹر اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کرے گا، اسے وہ رقم یعنی دولاکھ ریال مکمل ادا کردیے جائیں گےاور طے شدہ منافع ملنا اسی وقت سے بند ہوجائے گا۔ کیا اس طرح ڈیل کرنا شرعاً درست ہے؟ا گر درست نہیں ہےتو اس کا کوئی جائز حل بھی ارشاد فرمادیں۔