
شوہر کے دو مکان ہوں تو عورت وفات کی عدت کہاں گزارے ؟
سوال: اسلامی بہن کے شوہر کا انتقال ہوا ان کے دو گھر ہیں، ایک شہر میں اور ایک گاؤں میں(دونوں کے درمیان شرعی سفر نہیں ہے) ،شوہر اپنی فیملی(بیوی ، بچوں) کے ساتھ شہر والے گھر میں مقیم تھے ۔لیکن کسی کام سے صرف شوہر گاؤں گئے اوروہیں وفات و تدفین ہوئی، زوجہ کو اطلاع شہر والے گھر میں ملی ،سوال یہ ہے کہ ان کی زوجہ عدت کون سے گھر میں گزاریں گی؟
شوہر کے دو گھر ہوں تو بیوی کس گھر میں عدت گزارے گی ؟
سوال: ایک شخص کے دو گھر ہیں، ایک میں وہ خود رہتا ہو اور دوسرے میں عورت اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہو تو مرد کے فوت ہونے کے بعد عورت کس گھر میں عدت گزارے گی؟
بیمار شخص کے لیے روزوں کا فدیہ دینا جائز ہے؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خاتون کی عمر 63 سال ہے اور وہ درج ذیل چار بیماریوں میں مبتلا ہیں: کینسر، بلڈپریشر، شوگر، ہارٹ اٹیک۔ ان بیماریوں کے سبب اس کے بیس روزے قضا ہوگئے، ڈاکٹر نےان کوفی الحال روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، تو سوال یہ ہے کہ ان سابقہ روزوں کی قضا ہی ضروری ہے یا اس کا فدیہ بھی دیا جاسکتا ہے؟ نیز ابھی چنددن کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے تو کیا اس رمضان المبارک کے روزوں کا فدیہ بھی دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ نیز چند سال پہلے کینسر کے آپریشن کے دوران بے ہوشی کی کیفیت میں چار نمازیں قضا ہوئیں اور دو دن کی نمازوں کے وقت بے ہوشی نہیں تھی، صرف بیماری کے سبب قضا ہوئیں، اب ڈاکٹر نے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، تو دیگر دودن کی نمازوں کی طرح بے ہوشی کی حالت میں رہ جانے والی نمازوں کی بھی قضا کرنی ہوگی یا وہ معاف ہیں اور اب قضا کس طرح پڑھی جائے۔ فی الحال طبیعت بہتر ہے، بیٹھ کر رکوع وسجود کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں لیکن کبھی کبھار اشارے سے بھی نماز پڑھ لیتی ہیں؟ نوٹ: سائل کی وضاحت کے مطا بق مریض شیخ فانی نہیں ہے یعنی فی الحال بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں، لیکن کچھ عرصہ میں امید ہے کہ وہ صحت یاب ہوجائیں گی۔
کیا نامرد کی عورت پر بھی طلاق کی عدت لازم ہوگی؟
سوال: جو شخص بیوی کے ساتھ رہتا ہو مگر حقِ زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔ پھر شادی کے چار سال بعد وہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے، تو کیا اس کی عورت پربھی طلاق کی عدت لازم ہوگی؟
بیل دوڑ کے مقابلے کروانا، اس میں شریک ہونا اور دیکھنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں’’بیل دوڑ‘‘ کے مقابلے بہت زیادہ ہوتے ہیں، جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اولاً مخصوص افراد یا پارٹیاں اس مقابلے کا اہتمام کرتی ہیں اور بیل رکھنے والے کئی افراد اس میں حصہ لیتے ہیں،جس کے بیل جیت جائیں، انہی پارٹیوں کی جانب سے اسے بھاری رقم اور مختلف انعامات دئیے جاتے ہیں۔ پھر جب بیل دوڑانے کی باری آتی ہے،تو عموماً اکٹھے دو بیلوں کے پیچھے مخصوص انداز میں ایک نشست باندھی جاتی ہے، اس پر ایک شخص کیل لگی چھڑی ہاتھ میں لئے بیٹھ جاتا ہےاور دوڑ کے دوران جو بیل تیز نہ دوڑے، اسے کیل چبھوتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے بیل زخمی ہوجاتا اور بسا اوقات اس کا خون بھی نکل آتا ہے۔ ان بیلوں نے ایک مخصوص جگہ تک دوڑنا ہوتا ہے، کئی مرتبہ یہ بیل بے قابو ہوکر اس جگہ سے ہٹ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کافی نقصان ہوتا ہے، مثلاً بیلوں کا کسی اونچی جگہ سے گِر جانا،مجمع میں آکر لوگوں کو زخمی کرنا اور ان کا مالی نقصان کر دینا وغیرہ، پھر بیل جیتنے پر خوشی میں خوب ڈھول، گانے باجے اور ڈانس/ ناچنا بھی ہوتا ہے، نیز اس میں نمازوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ براہِ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق بیلوں کی دوڑ کے مقابلے کروانا اور اس میں شریک ہونا شرعاً کیسا؟
نفلی طواف بیٹھ کر کرنے سے دَم یا صدقہ لازم آئے گا؟
جواب: دوران سوار ہو کر کیے گئے طواف کا اعادہ یعنی اسے پیدل چل کر دوبارہ ادا کرنا لازم ہے ۔ (2) اگر اعادہ کیے بغیر وطن واپس آ جائیں ، تو سوار ہو کر کیے...