
گھر بنانے کے لیے رکھی رقم اور پلاٹ کی وجہ سے حج فرض ہوگا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں گورنمنٹ کی طرف سے حج 2025 کی رقم 4 لاکھ ہے، میرےپاس تین لاکھ نوے ہزار کی رقم تو بینک اکاؤنٹ میں ہے، یہ رقم میں نے گھر خریدنے کیلئے رکھی ہے کیونکہ ابھی میں والد صاحب کے ساتھ ان کے گھر میں رہتا ہوں جو کہ چھوٹا ہے،اسی کے ساتھ میرا ایک پانچ لاکھ کا پلاٹ بھی ہے جس کو میں نے گھر بنانے کیلئے ہی خرید اہے یعنی اس پلاٹ کی رقم اور بینک میں رکھی اماؤنٹ سے میں اپنا گھر خرید کر بناؤں گا، اب ایسی صورت میں کیا مجھ پر حج فرض ہوگا یا نہیں؟
نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا حکم
جواب: رقم 47، طبع دار احیاء التراث )( مسند احمد، جلد 37، صفحہ 498، رقم 22849، طبع مؤسسۃ الرسالہ )( صحیح البخاری، جلد 1،صفحہ 148، رقم 740، طبع دار المنھاج،...
زمین بیچ کر کاروبار کرنا کیسا ؟ ایک حدیثِ پاک کی شرح
سوال: ہم دو بھائیوں نے اپنی وراثتی زمین بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم آپس میں تقسیم کر لی ہے۔ اب میرا ارادہ ہے کہ میں اس رقم سے ٹرانسپورٹ کا کاروبار کروں۔ جب لوگوں کو میرے ارادے کے متعلق معلوم ہوا، تو کہنے لگے کہ سنی سنائی بات ہے کہ زمین کو نہیں بیچنا چاہیے۔ اس وجہ سے میں کافی پریشان ہوں کہ میں اپنا کاروبار شروع کر وں یا نہیں؟ برائے کرم میری رہنمائی فرمائیے کہ اس بات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ(1)لائف انشورنس کی شرعی حیثیت کیاہے؟ (2)اوربتائیے کہ سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااس کے بارے میں کیامؤقف ہے ؟ اگران کامؤقف عدمِ جوازکاہے ، توپھراحکام شریعت میں اسے جائزقراردیناکس بناپرہے؟ (3)لائف انشورنس کے علاوہ جنرل انشورنس جس میں ایک آدمی یاکمپنی اپنی جائدادگاڑی یامال کے تحفظ کیلئے کسی کمپنی کومخصوص مدّت کیلئے رقم دے ، توانشورنس کمپنی اس رقم کے عوض اس آدمی یاکمپنی کی جائداد،مال اورگاڑی وغیرہ کے تحفظ کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اگراس مخصوص مدّت میں جائداد،گاڑی یامال کوانشورنس پالیسی میں درج خطرات میں سے کوئی بھی خطرہ لاحق ہوگیاتوانشورنس کمپنی اس آدمی یاکمپنی کواس کامعاوضہ اداکرے گی ، توکیایہ کاروبارجائزہے ؟ اوراگرناجائزہے ، توقرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیے کہ کیوں ناجائزہے ؟ تفصیلاً بیان کردیں۔ سائل:محمدبلال(فیصل آباد)
جواب: رقم کی صورت میں طے کرے کہ یہ سودا کروانے کی اتنی رقم لوں گا ۔ فیصد میں طے کرے جبکہ اس کا عرف ہو کہ جتنے کی ڈیل ہوگی اس کا اتنا فیصد لوں گا۔ ل...
ایک معروف کمپنی کی تجارتی ڈیل کا شرعی حکم
سوال: ایک مینوفیکچر کمپنی کیش پر کام کرتی ہے ، ادھار پر کام نہیں کرتی جبکہ ایک معروف سپر اسٹور کو ادھار پر سامان کی حاجت ہے ، اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ان دونوں نے درج ذیل طریقہ اختیار کیا ہے : ایک شخص بطورِ ڈسٹری بیوٹر مینوفیکچر کمپنی سے مال خرید کر ثمن ادا کر کے قبضہ کر لیتا ہے (مینوفیکچر کمپنی کی طرف سے ڈسٹری بیوٹر پر کوئی شرطِ فاسد نہیں لگائی گئی) پھر ڈسٹری بیوٹر مینوفیکچر کمپنی ہی کو اپنا وکیلِ مطلق بنادیتا ہے کہ مینوفیکچر کمپنی جسے چاہے یہ مال فروخت کر دے۔ پھر مینوفیکچر کمپنی بحیثیتِ وکیل اپنے مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) کے مال کو مثلاً تین ماہ کے ادھار پر سپر اسٹور کو فروخت کر دیتی ہے ، تین ماہ گزر جانے کے بعد سپر اسٹور سے وکیل کو پیمنٹ موصول ہوتی ہے جسے وصول کرنے کے بعد وکیل (مینوفیکچر کمپنی) اپنے مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) کو پہنچا دیتی۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ(1)کیا مذکورہ طریقۂ کار شرعی طور پر جائز ہے ؟ (2)نیز اس میں خدانخواستہ سپراسٹور کا نقصان ہوگیا یا دیوالیہ ہوگیا اورسپر اسٹور وکیل کو رقم لوٹانے سے عاجز آ جاتا ہے ، رقم ادا نہیں کرتا تو یہ نقصان کون برداشت کرے گا ؟ وکیل (مینو فیکچر کمپنی) یا مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) ؟
قسط وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے دکان واپس لینا یا قسطوں کے ساتھ کرایہ لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ دکانوں کی خریدو فروخت میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مثلا :ً زید نےکسی کو موبائل مارکیٹ یا دوسری کسی مارکیٹ میں اپنی دکان70 لاکھ روپے میں بیچ دی اور یہ طے پایا کہ خریدار اس رقم کی ادائیگی 6 ماہ میں کرے گا ،اس طرح دکان خریدنے والے کو وہ دکان دے دی جاتی ہے اور وہ اس میں اپنا کام کرنا شروع کردیتا ہے یا آگے کسی کو کرایہ پر دے دیتا ہے اور ہر ماہ زید کو دکان کی قیمت کی ادائیگی بھی کرتا رہتا ہے ،اگر خریدار وقت پر مقررہ رقم کی ادائیگی کردے تو ٹھیک ،ورنہ اگر وہ مقررہ وقت میں رقم مکمل ادا نہ کرے،تو زید اس سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ میں آپ کو مزید تین ماہ کی مہلت دے رہا ہوں ،لیکن اس میں یہ شرط ہوگی کہ اس دوران مجھے اس دکان کا رائج کرایہ دیتے رہنا ، اب یہ کرایہ بھی ایسی مارکیٹوں میں کوئی معمولی نہیں ہوتا ،بلکہ 50 ہزار سے لاکھ بلکہ اچھی لوکیشن پر اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے،چنانچہ وہ خریدار بقیہ قسطوں کی ادائیگی کے ساتھ ان تین مہینوں کا کرایہ بھی دیتا ہے،کیونکہ اگر وہ کرایہ والے معاہدہ پر راضی نہ ہو تو دکان اس سے واپس لے لی جاتی ہے اور خریدار نے قسطوں میں جتنی رقم ادا کی ہوتی ہے ،اس میں سے چند فیصد کٹوتی کرکے اس کو دے دی جاتی ہے یا پھر اس کو کہا جاتا ہے کہ آپ نے ان گزشتہ مہینوں میں اس دکان کو کرائے پر دے کر جتنا بھی کرایہ حاصل کیا ہے اگر وہ سب ہمیں دے دو ،تو آپ کو اد ا شدہ قسطوں کی رقم مکمل واپس کردی جائے گی ۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا قسطیں وقت پر ادا نہ کرنے کے سبب خریدار سے دکان کو واپس لینا اور اس کی ادا شدہ رقم بھی پوری واپس نہ کرنا یا اس کا حاصل شدہ کرایہ اس سے لے لینا شرعاً جائز ہے ؟اسی طرح مزید مہلت دینے کی صورت میں قسطوں کے ساتھ ساتھ کرایہ لینا کیسا ؟
چلتے کاروبار میں فی پیس کے حساب سے نفع طے کرنے کا حکم اور اس کا متبادل جائز طریقہ
سوال: زید کی ایک گارمنٹس فیکٹری (Garments Factory)ہے جس میں اس کا تقریباً دس ملین ریال (Ten million riyals) کا سرمایہ (Capital)لگا ہوا ہے۔ زید،بکر نامی انویسٹر (Investor) سے دولاکھ ریال بطور انویسٹمنٹ (Investment) لیتا ہے۔ دونوں کے درمیان نفع کے متعلق یہ طے ہوتا ہے کہ فیکٹری میں بننے والے ہر اوکے پیس(Perfect Piece) پر بکر کو دو ریال نفع ملے گااور جو پیس (Piece)ریجیکٹ(Reject) ہوجائیں گے ان پر کچھ بھی نفع نہیں ملے گا جبکہ نقصان کے متعلق دونوں کے درمیان کچھ طے نہیں ہوا۔ یہ بھی طے ہوا ہے کہ جب تک یہ انویسٹمنٹ(Investment) زید کے پاس رہے گی اسی طرح ڈیل چلتی رہے گی ۔ سال یا دو سال بعد جب بھی انویسٹر اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کرے گا، اسے وہ رقم یعنی دولاکھ ریال مکمل ادا کردیے جائیں گےاور طے شدہ منافع ملنا اسی وقت سے بند ہوجائے گا۔ کیا اس طرح ڈیل کرنا شرعاً درست ہے؟ا گر درست نہیں ہےتو اس کا کوئی جائز حل بھی ارشاد فرمادیں۔
سوال: بولی والی کمیٹی کا شرعی حکم کیا ہے؟ہمارے ہاں اس کا طریقہ یہ ہے کہ کمیٹی میں شامل ہونے والے افراد ہر ماہ ایک جگہ جمع ہوکر کمیٹی ہولڈر کو رقم جمع کرواتے ہیں،پھر اسی جگہ بولی لگتی ہے،جو ممبر سب سے کم بولی لگاتا ہے،اسے اتنی کمیٹی دے کر بقیہ رقم دیگر ممبران میں تقسیم کر دی جاتی ہے،مثلاً 10 لاکھ کی کمیٹی ہے اور 9لاکھ بولی لگی،تو 9لاکھ بولی لگانے والے کو دے کر 1لاکھ ممبران میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، لیکن کمیٹی لینے والے کو ہر ماہ کمیٹی جمع کروا کر 10لاکھ پورے کرنے ہوتے ہیں،یعنی رقم وہ کم لیتا ہے،لیکن ادائیگی زیادہ کرتا ہے۔البتہ کمیٹی ہولڈر اور آخر میں لینے والے دونوں کو بغیر بولی کے پوری کمیٹی ملتی ہے، ہاں ان کو بھی بقیہ ممبران کی کمیٹی سے اضافی رقم ملتی رہتی ہے۔بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ہر ممبر اپنی مرضی سے کم بولی لگا کر بقیہ رقم چھوڑتا ہے،لہذا بقیہ ممبران کیلئے وہ رقم جائز ہے۔براہِ کرم رہنمائی فرمائیں کہ ایسی کمیٹی شروع کرنا کیسا ،اگر کسی نے کر لی ہو اور اضافی رقم بھی لے چکا ہو،تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟