
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0127
تاریخ اجراء:16 جمادی الاخری 1445ھ/30دسمبر 2023ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں کئی ایک کمپنیز ہیں ہے جو لوگوں سے مختلف پلان کے تحت انویسٹمنٹ لیتی ہیں۔ کسی پلان میں دوسال کے لئے اور کسی میں کم یا زیادہ مدت کے لئے انویسٹمنٹ لیتے ہیں۔ اس انویسٹمنٹ سے وہ کمپنیاں مختلف قسم کے کاروبار کرتی ہیں جیسا کہ فرنیچر، پراپرٹی،کولڈ اسٹوریج، پنک سالٹ وغیرہ۔
انویسٹ کرنے والے افراد کو انویسٹمنٹ کا 7 فیصد سے 20 فیصد تک رقم اور مدت کے حساب سے طے کرکے ماہانہ پروفٹ دیا جاتا ہے البتہ اس پرافٹ میں سود سے بچنے کے لئے فکس رقم مقرر نہیں کی جاتی بلکہ مقرر کردہ پرسنٹیج یعنی سات سے بیس فیصد کے درمیان کوئی بھی فیصد کبھی کم کبھی زیادہ دی جاتی ہے، معاہدے کی مدت مکمل ہونے پر انویسٹر کو اس کی اصل رقم بھی واپس مل جاتی ہے۔ اس دوران بالفرض کمپنی کا کوئی نقصان بھی ہوجائے تب بھی انویسٹر کو اس کی اصل رقم بمع پروفٹ ضرور ملتی ہے۔
براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اس طرح کی کمپنیوں میں پارٹنرشپ کرناکیسا؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ اس طرح کی کمپنیز کے ساتھ کمیشن پر کام کرناکیسا؟ اس میں ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جو شخص بھی اپنی کوشش سے کسی فرد کو کمپنی جوائن کروائے گااسے فی لاکھ انویسٹ کروانے پر چار ہزارروپے یا اسی طرح کی کوئی مقرر کردہ رقم بطور کمیشن دی جاتی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھے گئے سوال کا دو اعتبار سے جواب دینا ضروری ہے:
1)معاشرتی اعتبار سے جواب
2) فقہی اعتبار سے جواب
معاشرتی اعتبار سے جواب:
آج ہجوم اور تیز رفتاری کے دور میں عدم شناسائی بڑھتی جارہی ہے، کاروبار اور تجارت میں ایک اہم اصول یہ ہے کہ با اعتماد فرد سے کام کیا جائے۔فی زمانہ متعدد بلکہ سینکڑوں ایسی کمپنیاں کام کررہی ہیں جو لوگوں سے سوائے فراڈ کے کچھ نہیں کرتیں۔ یہ لوگ اپنے ایجنٹوں کو بھاری کمیشن دیتے ہیں، وہ ایجنٹ صرف چھوٹی سی بوٹی کے لئے گائے حلال کرنے پر لگ جاتے ہیں۔ ایسے ایجنٹوں کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ یہ خود لالچ کا شکار ہوکر فراڈی کمپنیوں کی جانچ نہیں کرپاتے اور نہ ہی ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون سی کمپنی قانونی طور پر کس انداز کا کام کرسکتی ہے اور کس انداز کا کام نہیں کرسکتی ۔یہ ایجنٹ دوچار پیپر خوددیکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور پھر آگے گاہکوں کو دانستہ یا نادانستہ پھنسانے پر لگ جاتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات تو سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے کہ یہ سب فراڈ ہے ، صرف اپنے کمیشن کے لئے لوگوں کا سرمایہ برباد کرتے ہیں، بلاشبہ دونوں ہی صورتیں سخت ناجائز ہیں ، دوسری صورت تو بہت بڑا ظلم ہے۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستانSECPآئےدن ایسی کمپنیوں کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر نوٹس جاری کرتا رہتا ہے لیکن ایسے نوٹسوں کی مثال یہی ہے کہ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کو ن سنتا ہے۔
جب سے آن لائن اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا دور آیا ہے اس کے بعد سے فراڈ اور دونمبری بہت عام ہوگئی ہے لہٰذا سب سے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فراڈ کرنے والی کمپنیوں کی ایک علامت یہ ہےکہ وہ غیر قانونی طریقہ پر اپنا کر کام کرتی ہیں۔ ہر کمپنی کواس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ پبلک سے براہ راست سرمایہ جمع کرے۔بہت پرکشش نفع ، خواب اور ایسے منصوبے جن کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیں ، ان کے سبز باغ دکھا کر لوگوں کو لوٹنے کا سلسلہ بہت بڑھ گیا ہے۔
سوال کی نوعیت بتا رہی ہے کہ یہ پورا کام بھی دو نمبر کمپنیاں چلاکر لوٹنے والوں کی طرز پر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
ذکر کردہ وضاحت کا پس منظر بیان کر دیا گیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ قانونی اجازت رکھنے والی کمپنیاں فراڈ نہیں کرتیں ، ان کے فراڈ کی بھی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ بلکہ نجی کاروبار یعنی دو افراد کا لین دین جس میں کسی قانونی لائسنس کی حاجت نہیں ہوتی ، یہاں بھی فراڈ کی ایک سے بڑھ کر ایک صورت سامنے آتی رہتی ہے۔
لہٰذا معاشرتی تعلق سے یہ عرض ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا اور دھوکہ میں پڑناکوئی عقلمندی نہیں۔
سب سےپہلے تو ایسی کمپنیوں کے بارے میں مالی احتیاط بہت ضروری ہے کہ ضیاعِ مال جائز نہیں۔ مال اللہ تعالی کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے ، اس کو دیکھ بھال کرخرچ کرنایا محفوظ جگہ پر سرمایہ کاری کرنا بہت اہم ہے۔
فقہی اعتبار سے جواب:
مذکورہ کمپنیز کا انویسٹمنٹ لینے اور اس پر منافع دینے کا طریقہ شراکت داری نہیں بلکہ خالص سودی طریقہ ہے لہٰذا اس طرح کی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ کرنا اور اس سے پروفٹ حاصل کرنا، ناجائز و حرام ہے نیز اس طرح کی کمپنیز میں لوگوں کو جوائن کروانا سودی کام میں معاونت ہے اور اس پر کمیشن حاصل کرنا بھی ناجائز و حرام ہے۔
مسئلے کی تفصیل
ان کمپنیز میں شرکت کا حکم:
سوال میں ذکر کی گئی تفصیلات کے مطابق جب یہ بات طے ہے کہ انویسٹر کو ایک مخصوص مدت کے بعد اس کی اصل رقم واپس مل جائے گی تو اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ رقم بطور شرکت نہیں دی جارہی بلکہ بطور قرض دی جارہی ہے کیونکہ کسی کو کوئی چیز اس لیے دینا کہ بعد میں وہ اس کی مثل واپس کرے،’’قرض“ کہلاتا ہے۔ اسی قرض کی وجہ سے کمپنی انویسٹر کو ہر ماہ پروفٹ دے رہی ہے حالانکہ قرض پر ملنے والا مشروط نفع سود ہوتا ہے اور سود کا لین دین کرنا حرام و سخت گناہ ہے۔
نیز بالفرض اس کو کاروباری شراکت مان بھی لیا جائے تو نفع دینے کا جو طریقہ کار مقرر کیا گیا ہے وہ بھی شرکت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ شرکت میں ہر فریق کا نفع فیصد کے اعتبار سے طے ہونا ضروری ہے ورنہ شرکت فاسد قرار پاتی ہے۔
جوائن کروانے پر کمیشن کا حکم:
ان کمپنیز میں دیگر افراد کو جوائن کروانا درحقیقت سودی کاموں میں معاونت ہے جو کہ ناجائز و حرام ہے نیز کمیشن کا یہ طریقہ کار کمیشن کے شرعی اصولوں کے بھی خلاف ہےلہٰذا اس پر کمیشن حاصل کرنا بھی جائز نہیں۔
گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سےسے متعلق قرآن کریم میں ہے:’’وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَان‘‘ ترجمہ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو ۔(پارہ:06، سورہ المائدہ،آيت:02)
قرض کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:’’شرعاً: ما تعطيه من مثلى لتتقاضاه‘‘یعنی: کسی شے کو اس غرض سے دینا کہ واپس اسی کی مثل حاصل کیا جاسکے شرعی اعتبار سے قرض کہلاتا ہے۔(درمختار،جلد07،صفحه406،مطبوعہ کوئٹہ)
قرض پر مشروط نفع سود ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے:’’كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا ‘‘یعنی:ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے وہ سود کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔(السنن الكبرى للبيهقى ،جلد5،صفحه 573،مطبوعه بيروت)
سود کے متعلق صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه‘‘، وقال:’’هم سواء۔‘‘یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب برابر کے شریک ہیں۔(صحيح مسلم،جلد 3، صفحه1219،مطبوعه بيروت)
شرکت کی شرائط ذکر کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں ہے:’’(ومنھا):ان يكون الربح معلوم القدر، فان كان مجهولا تفسد الشركة‘‘ یعنی:ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ نفع کی مقدار فیصد کے اعتبار سے معلوم ہو، اگر نفع کی مقدار مجہول ہو تو شرکت فاسد ہوگی۔(بدائع الصنائع،جلد06،صفحه59،مطبوعہ بيروت)
سیدی اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت ،مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے ایک سوال ہوا جس کے الفاظ یہ ہیں”اس وقت زید سے بکر نے کہا کہ اگر اس وقت پندرہ سو روپے دو تو میں لے لوں اور تجارت میں لگادوں اور چار سال میں اگر روپیہ ادا ہوا تو منافع لوں گا“تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”صورت مستفسرہ میں وہ منافع قطعی سود اور حرام ہیں، حدیث میں ہے:”کل قرض جرمنفعۃ فھو ربا“ قرض سے جو نفع حاصل کیا جائے وہ سو دہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ 561،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور)
اسی طرح کی ایک کمپنی میں انویسٹمنٹ کے متعلق امام اہلسنت سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:”شرکت کا مقتضٰی یہ ہے جیسے نفع میں سب شریک ہوتے ہیں نقصان ہو تو وہ بھی سب پر ہر ایک کی مال کی قدر پڑے۔۔۔ یہاں اگر نقصان ہوا جب بھی ان حصہ داروں کو اس سے غرض نہ ہوگی ، وہ اپنے ہزار روپے لے چھوڑیں گے، یہ شرکت ہوئی یا غصب؟ اصل مقتضاء شرکت عدل و مساوات ہے۔۔۔بہرحال یہاں نہیں مگر صورت قرض، اور اس پر نفع مقرر کیا گیا،یہی سود ہے اور یہی جاہلیت میں تھا۔“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ 372،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور، ملتقطا )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم