
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اسکن پر خاص طور پر چہرے کے اوپر اگر ابھرے ہوئے تل نما نشان بنے ہوں، جنہیں "Moles" کہتے ہیں، کیا ان کو ریموو کروا سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر ان "Moles" کو صاف کروانے میں کسی قسم کی ہلاکت کا غالب گمان نہ ہو، اور ان کی صفائی میں شرعی حدود مثلا ً پردہ وغیرہ کا لحاظ رکھا جائے، اور اس کے علاوہ دوسری کوئی شرعی خرابی بھی نہ ہو تو ان کو صاف کروانے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر غالب گمان یہ ہو کہ ان کو صاف کروانے میں کوئی طبی نقصان ہوگا، یا اس عمل میں کوئی غیر شرعی کام مثلاً بے پردگی وغیرہ کا ارتکاب کرنا پڑے گا، تواس اندازمیں ان کو صاف کروا نے کی اجازت نہیں ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
اذا اراد الرجل ان یقطع اصبعا زائدۃ او شیئا آخر، قال نصیر رحمہ اللہ: ان کان الغالب علی من قطع مثل ذلک الھلاک فانہ لا یفعل، و ان کان الغالب ھو النجاۃ فھو فی سعۃ من ذلک۔۔۔۔ من لہ سلعۃ زائدۃ، یرید قطعھا، ان کان الغالب الھلاک فلا یفعل و الا فلا بأس بہ
ترجمہ: جب کوئی آدمی زائد انگلی یا کوئی اور زائد چیز کٹوانا چاہے تو نصیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: اگر اس کے کٹوانے میں ہلاکت کا غالب اندیشہ ہو تو وہ ایسا نہیں کر سکتا، اور اگر غالب گمان یہ ہو کہ وہ اس سے نجات پا لے گا تو پھر اس کی گنجائش ہے( یعنی کٹوا سکتا ہے)۔ جس کی کھال کے ساتھ زائد گوشت لگا ہو، اور وہ اسے کاٹنا چاہتا ہے، اگر اس کاٹنے سے ہلاکت کا غالب گمان ہو تو اسے نہیں کاٹ سکتا، ورنہ اس کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔ ( فتاوی عالمگیری، جلد 5، صفحہ 440،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3976
تاریخ اجراء: 05 محرم الحرام 1447ھ / 01 جولائی 2025ء