
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ہرن کی مشک(deer musk) استعمال کرنے کا کیا حکم ہے، خاص طور پر جب یہ معلوم نہ ہو کہ ہرن کو اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا تھا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مشک کا استعمال بہرصورت جائز ہے، اگرچہ ہرن کو اسلامی طریقے پر ذبح نہ کیا گیا ہو، کیوں کہ خون سے جب یہ خوشبو میں بدل گئی تو پاک و حلال ہوگئی، اب اسلامی طریقے پرذبح ہونا کوئی ضروری نہیں کیونکہ ناپاک چیز جب کسی پاک چیز میں بدل جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے جیسے گوبر ناپاک ہوتا ہے لیکن جب وہ راکھ میں تبدیل ہوجائے تواب راکھ پاک ہوتی ہے۔
در مختار میں ہے
(و المسك طاهر حلال و كذا نافجته) طاهرة(مطلقا على الأصح) فتح
ترجمہ: مشک اور اس کا نافہ(ہرن کے پیٹ میں مشک کی تھیلی) مطلقا پاک حلال ہے اصح قول کے مطابق۔ یہ فتح القدیرمیں ہے۔
( طاهر حلال) کے تحت رد المحتار میں ہے
لأنه و إن كان دما فقد تغير فيصير طاهرا كرماد العذرة خانية، و المراد بالتغير الاستحالة إلى الطيبة و هي من المطهرات عندنا، و زاد قوله حلال؛ لأنه لا يلزم من الطهارة الحل كما في التراب منح: أي فإن التراب طاهر و لا يحل أكله. قال في الحلية: و قد صح عن النبي - صلى الله عليه و سلم - «إن المسك أطيب الطيب» كما رواه مسلم، و حكى النووي إجماع المسلمين على طهارته و جواز بيعه
ترجمہ: ” اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ خون تھی، مگر چونکہ اس کی حالت تبدیل ہو چکی ہے، اس لیے یہ پاک بن گئی، جیسا کہ گوبر کی راکھ پاک ہو جاتی ہے (جیسا کہ خانیہ میں ہے)، اور یہاں "تغیر"(تبدیلی) سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز اپنی اصل ناپاک حالت سے بدل کر خوشبودار چیز بن گئی، اور ایسی تبدیلی (استحالت) ہمارے نزدیک پاک کرنے والی ہوتی ہے۔ مصنف نے "حلال" کا لفظ مزید اس لیے بڑھایا کیونکہ ہر پاک چیز لازمی طور پر حلال نہیں ہوتی، جیسے مٹی وہ پاک ہے، لیکن اس کا کھانا حلال نہیں۔ حلیہ میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح حدیث ثابت ہے ”بے شک تمام خوشبوؤں میں سب سے بہتر خوشبو "مشک" ہے۔“ جیسا کہ مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور امام نووی نےمشک کے پاک ہونے اور اس کی خریدو فروخت کے جائز ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہونا بیان کیا ہے۔
(مطلقا) کے تحت رد المحتارمیں ہے
”أي من غير فرق بين رطبها و يابسها، و بين ما انفصل من المذبوحة و غيرها، و بين كونها بحال لو أصابها الماء فسدت أو لا“
ترجمہ: (مصنف کے قول: مطلقا) سے مراد ہے کہ خشک و تر اور ذبح کیے ہوئے جانور سے جدا ہوئی یا غیر مذبوحہ سے اور اس حالت میں ہوکہ اسے پانی پہنچے تو فاسد ہو جائے یا ایسی نہ ہو، ان تمام باتوں میں فرق کئے بغیر مطلقا پاک ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 209، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3990
تاریخ اجراء: 08 محرم الحرام 1447ھ / 04 جولائی 2025ء