
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
رضاعت کا کیا مطلب ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
رضاعت کا مطلب یہ ہے کہ: "جس بچی یا بچے نے اڑھائی سال کی عمرکے اندر کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو اس بچی یا بچے سے اس عورت کارضاعت (یعنی دودھ) کارشتہ ثابت ہو جاتا ہے۔"
اب وہ بچی یا بچہ دودھ پلانے والی عورت کی رضاعی بیٹی یا رضاعی بیٹا بن جاتا ہے، اور دودھ پلانے والی ان کی رضاعی ماں بن جاتی ہے اور جس شوہر کا یہ دودھ تھا،وہ ان کا رضاعی باپ بن جاتا ہے، اور پھر اس عورت اور شوہر کے تمام رشتے دار ان کے رضاعی رشتے دار بن جاتے ہیں، پس اس عورت کی تمام اولادیں دودھ پینے والے کے رضاعی بھائی بہن بن جاتے ہیں خواہ اسی شوہر سے ہوں یا دوسرے شوہر سے، اس کے دودھ پینے سے پہلے کے ہوں یا بعد کے یا ساتھ کے۔ اور عورت کے بھائی دودھ پینے والے کے رضاعی ماموں اور اس کی بہنیں دودھ پینے والے کی رضاعی خالائیں بن جاتی ہیں۔
يونہی اس شوہر کی اولادیں اس کے رضاعی بھائی بہن(خواہ شوہر کی یہ اولادیں اسی عورت سے ہوں یا دوسری سے) اور اُس کے بھائی اس کے رضاعی چچا اور اُس کی بہنیں، اس کی رضاعی پھوپیاں۔ يونہی ہر ایک کے باپ، ماں اس کے رضاعی دادا دادی، اور نانا، نانی۔
پھر حکم یہ ہوتا ہے کہ رضاعی ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، رضاعی بہن بھائی، چچا،پھوپھی، رضاعی بھتیجے، بھانجے، خالہ، ماموں وغیرہ سب سے نکاح حرام ہوجاتا ہے کہ حدیثِ مبارک میں فرمایا گیا کہ جو رشتہ نسب سے حرام ہوتا ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہوتا ہے۔
نوٹ:یہ یادرہے کہ بچے یابچی کودودھ پلانے کی اجازت صرف دوسال تک ہے۔ جب چاندکے لحاظ سے بچے یابچی کی عمردوسال ہوجائے تواب اسے دودھ پلانا،جائزنہیں لیکن اگراس کے بعدڈھائی سال کے عرصے کے اندر اندر دودھ پلایاتورضاعت کارشتہ ثابت ہوجائے گا۔
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ)
ترجمہ: (تم پرحرام کی گئیں) تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں۔ (پارہ 04، سورۃالنساء آیت 23)
اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے "رضاعی رشتے دودھ کے رشتوں کو کہتے ہیں۔ رضاعی ماؤں اور رضاعی بہن بھائیوں سے بھی نکاح حرام ہے بلکہ رضاعی بھتیجے، بھانجے، خالہ، ماموں وغیرہ سب سے نکاح حرام ہے۔ حدیثِ مبارک میں فرمایا گیا کہ جو رشتہ نسب سے حرام ہوتا ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہوتا ہے۔"(تفسیر صراط الجنان، سورۃ النساء، جلد 2، صفحہ 191، آیت 23، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
سنن الترمذی میں ہے
عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «إن الله حرم من الرضاع ما حرم من النسب»۔۔۔«حديث علي صحيح»
ترجمہ:حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا: بے اللہ پاک نے جو رشتےنسب سے حرام فرمائے ہیں وہ رشتے رضاعت سے بھی حرام فرمائے ہیں۔۔۔ حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث صحیح ہے۔ (سنن الترمذی، حدیث 1146، جلد 3، صفحہ 444، الناشر: مصر)
فتاوی عالمگیری میں ہے
يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب و الرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع و أخواته و أولادهم أولاد إخوته و أخواته و أخو الرجل عمه و أخته عمته و أخو المرضعة خاله و أختها خالته و كذا في الجد والجدة
ترجمہ: رضیع (یعنی دودھ پینے والے بچے) پر اس کے رضاعی ماں باپ اور ان کے اصول و فروع خواہ وہ نسبی ہوں یا رضاعی، سب حرام ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ مرضعہ کی اس شوہر سے اولاد یا اس کے علاوہ کسی شوہر سے اولاد، اس کو دودھ پلانے سے پہلے کی ہو یا بعد کی، یا اس نے کسی اور کو دودھ پلایا ہو یا اس کے شوہر کی کسی دوسری بیوی سے اولاد ہو خواہ اس کو دودھ پلانے سے پہلے کی ہو یا بعد کی ،یا کسی عورت نے اس کے شوہر کی وطی سے اترا ہوا دودھ جس کو پلایا ہو، تو یہ سب اس رضیع کے رضاعی بہن بھائی ہیں، اور اِن کی اولادیں اس کے بھتیجے بھتیجیاں، بھانجے بھانجیاں ہیں، اور مرضعہ کے شو ہر کے بہن بھائی اس کے چچا و پھوپی ہیں اور مرضعہ کے بہن بھائی اس کے ماموں و خالہ ہیں، اسی طرح دادا، دادی، نانا ،نانی کے بارے میں(حکم ہے)۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 343، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے "بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں۔ یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے ليے ڈھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمت نکاح ثابت ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر پیا، تو حرمت نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں۔۔۔ رضاع (یعنی دودھ کا رشتہ) عورت کا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے۔" (بہار شریعت، حصہ 07، صفحہ 36، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے "بچہ نے جس عورت کا دودھ پیا وہ اس بچہ کی ماں ہو جائے گی اور اس کا شوہر(جس کا یہ دودھ ہے یعنی اُس کی وطی سے بچہ پیدا ہوا جس سے عورت کو دودھ اترا) اس دودھ پینے والے بچہ کا باپ ہو جائے گا اور اس عورت کی تمام اولادیں اس کے بھائی بہن خواہ اسی شوہر سے ہوں یا دوسرے شوہر سے، اس کے دودھ پینے سے پہلے کی ہیں یا بعد کی یا ساتھ کی اور عورت کے بھائی، ماموں اور اس کی بہن خالہ۔ يوہيں اس شوہرکی اولادیں اس کے بھائی بہن اور اُس کے بھائی اس کے چچا اور اُس کی بہنیں، اس کی پھوپیاں خواہ شوہر کی یہ اولادیں اسی عورت سے ہوں یا دوسری سے۔ يوہيں ہر ایک کے باپ، ماں اس کے دادا دادی، نانا ،نانی۔" (بہار شریعت، حصہ 07، صفحہ 37، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3978
تاریخ اجراء: 05 محرم الحرام 1447ھ / 01 جولائی 2025ء