میت کو بوسہ دینا درست ہے؟

میت کو بوسہ دینے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میت کو بوسا دینا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

برکت یامحبت کےطور پرمیت کو بوسا دینا جائز ہے جبکہ کوئی مانع شرعی نہ ہو جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے حضر ت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کےبعد ان کو بوسہ دیا۔ اسی طرح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ اور کوئی مانع شرعی پاپا جائےتو پھر میت کو بوسہ دینا جائز نہیں مثلا شہوت کے ساتھ میت کو بوسہ دینا، یا غیر محرم کو بوسہ دینا یا شوہر کا فوت شدہ زوجہ کو بوسہ دینا وغیرہ۔

سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ، المستدرك على الصحيحين، المعجم الکبیر للطبرانی، کنز العمال، شرح معانی الاثار، اور سنن ابی داؤد وغیرہا کتبِ حدیث میں ہے

و النظم للآخر"عن عائشة، قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل عثمان بن مظعون و هو ميت، حتى رأيت الدموع تسيل

یعنی: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عثمان بن مظعون کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا، جبکہ ان کا انتقال ہو چکا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے آنسو بہہ رہے تھے۔ (سنن ابی داؤد، جلد 3،صفحہ 201، حدیث 3163، الناشر: المكتبة العصرية، بيروت)

امام ترمذی، حضرت عثمان بن معظون رضی اللہ تعالی عنہ کو بوسہ دینے والی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں

حديث عائشة حديث حسن صحيح

یعنی: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث حسن، صحیح ہے۔ (سنن الترمذي، باب ما جاء في تقبيل الميت، جلد 03، صفحہ 305، الناشر: مصر)

اس حدیث کے تحت نخب الأفكار(510 / 13) اور مرقاۃ المفاتیح میں ہے

(و النظم للمرقاۃ) "قال ابن الملك: يعلم من هذا أن تقبيل المسلم بعد الموت و البكاء عليه جائز"

یعنی: ابن ملک نے کہا کہ اس روایت سے معلوم ہواکہ موت کے بعد مسلمان میت کا بوسہ لینا اور اس پر (بغیر آوازکے ) رونا جائز ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 3، صفحہ 1169، الناشر: دار الفكر، بيروت، لبنان)

صحیح بخاری، سنن النسائی، سنن ابن ماجہ، کنز العمال اور شرح السنۃ للبغوی میں ہے

و النظم للآخر" عن عائشة، و ابن عباس: أن أبا بكر قبل النبي صلى الله عليه و سلم بعد موته۔۔۔ هذا حديث صحيح"

یعنی: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ کو بوسہ دیا۔ (مذکورہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام بغوی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں کہ) یہ حدیث صحیح ہے۔ (شرح السنۃ للبغوی، باب تقبيل الميت، جلد 05، صفحہ 303، الناشر: المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت)

سنن النسائی میں ہے

عن عائشة، أن أبا بكر، «قبل بين عيني النبي صلى الله عليه و سلم و هو ميت»

یعنی: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ (سنن النسائی، باب تقبيل الميت، جلد 04، صفحہ 11، الناشر: قاھرہ)

مراقي الفلاح شرح نور الايضاح میں ہے

"و لا بأس بتقبيل الميت" للمحبة و التبرك توديعا خالصة عن محظور"

یعنی: میت کو رخصت کرتے ہوئے محبت یا تبرک کے لئے بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ وہ ممنوع شرعی کام سے خالی ہو۔ اس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے

(والتبرک) الواو بمعنی او، فان تقبیلہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم عثمان للمحبۃ، و تقبیل ابی بکر الرسول الاکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم لھما معا۔ (قوله: خالصة عن محظور) هذا قيد في الجواز أما إذا كانت لشهوة فحرام

ترجمہ: (و التبرک میں) واؤ، اَو کے معنی میں ہے، پس حضور علیہ السلام کا حضرت عثمان کو بوسہ دینا م بطورِ محبت تھا اور حضرت ابوبکر کا حضور کو بوسہ دینا محبت اور تبرک دونوں کے لیے تھا۔ (ان کا قول: محظور سے بچتے ہوئے) بوسہ کے جواز کے لئے یہ قید ہے بہرحال بوسہ شہوت کے لئے ہو تو حرام ہے۔(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، صفحہ 573، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)

در مختار میں ہے

و يمنع زوجها من غسلها و مسها

ترجمہ: شوہر کے لیے اپنی فوت شدہ بیوی کو غسل دینا اور چھونا منع ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 117، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3979

تاریخ اجراء: 06 محرم الحرام 1447ھ / 02 جولائی 2025ء