تھکاوٹ کے سبب 5 نمازیں ایک ساتھ قضا پڑھنا

تھکاوٹ کی وجہ سے پانچوں نمازیں ایک ہی وقت میں قضا پڑھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میں کام کی وجہ سے بہت تھکا ہوا رہتا ہوں، تو کیا میں پانچ وقت کی نماز ایک ہی وقت میں قضا کر سکتا ہوں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پانچ وقت کی نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر سب سے اہم فریضہ ہے، اور پانچوں نمازیں اپنے مقررہ وقت پر ادا کرنا فرض ہے۔ بلاعذر شرعی کسی ایک نماز کو بھی جان بوجھ کر قضا کردینا سخت حرام و گناہ کبیرہ ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر ایک وقت کی نماز بھی چھوڑے تو ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب اور عذاب جہنم کا حقدار ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق ایسے شخص کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔ کام کاج کی وجہ سے تھکا وٹ ہونا، معاذ اللہ عزوجل نماز قضا کردینے کا کوئی عذر نہیں، نماز سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں اور نہ ہوسکتی ہے۔ لہذا کام جتنا بھی ہو اور تھکاوٹ جیسی بھی ہو، بہرحال نمازوں کی ادائیگی ان کے وقت پر ہی لازم وضروری ہے، اُنہیں قضا کرنے کی شرعاً ہرگز اجازت نہیں۔

اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾

ترجمہ کنزالعرفان: بیشک نماز مسلمانوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔ (پارہ 5 النساء: 103)

تفسیرِ خازن میں ہے:

و الكتاب هنا بمعنى المكتوب يعني مكتوبة موقتة في أوقات محدودة فلا يجوز إخراجها عن أوقاتها على أي حال كان من خوف أو أمن

ترجمہ: اور یہاں کتاب، مکتوب کے معنی میں ہے یعنی مقررہ اوقات میں جو وقت کے ساتھ لکھ دی گئی ہیں (فرض کی گئی ہیں) لہذا کسی بھی حال میں ان نمازوں کوان کے وقت کے علاوہ کسی اوروقت میں اداکرنا جائز نہیں، نہ حالت خوف میں اورنہ حالت امن میں۔ (تفسیرِ خازن، جلد 1، صفحہ 423، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

قصداً نماز چھوڑنے کی مذمت کے بارے میں "حلیۃ الاولیاء" اور "کنز العمال" کی حدیثِ مبارک میں ہے:

”و النظم للاول“ عن أبي سعيد عن النبي صلى اللہ عليه و سلم من ترک الصلاۃ متعمداً کتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها

ترجمہ: حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جس نے قصداً نماز چھوڑی تو اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔ (حلیۃ الاولیاء، جلد 7، صفحہ 254، مطبعۃ السعادۃ، مصر)

بلاعذر شرعی نماز قضا کردینا گناہ کبیرہ ہے، چنانچہ در مختار میں ہے:

التأخير بلا عذر كبيرة لا تزول بالقضاء بل بالتوبة

ترجمہ: بغیر عذر شرعی کے نماز میں تاخیر کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور (نماز کی تاخیر کا گناہ) قضا کرنے سے زائل نہیں ہوگا، بلکہ (ساتھ میں) توبہ کرنے سے ختم ہوگا۔ (در مختار، صفحہ 97، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے:”ایمان و تصحیح عقائد مطابق مذہب اہل سنت و جماعت کے بعد نماز تمام فرائض میں نہایت اہم و اعظم ہے۔ قرآن مجید و احادیث نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اس کی اہمیت سے مالا مال ہیں، جا بجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وعید فرمائی۔۔۔ جو قصداً (نماز)چھوڑ ے اگرچہ ایک ہی وقت کی وہ فاسِق ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 433، 443، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

دو یا اس سے زائد نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا جائز نہیں، چنانچہ فتا وی عالمگیری میں ہے:

و لا یجمع بین الصلاتین فی وقت واحد لا فی السفر و لا فی الحضر بعذر ما عدا عرفۃ و المزدلفۃ کذا فی المحیط

ترجمہ: ایک وقت میں دونمازوں کو کسی بھی عذرکی وجہ سے جمع نہیں کرسکتا، نہ سفرمیں اورنہ حضرمیں، سوائے عرفہ اورمزدلفہ کے، اسی طرح محیط میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، باب فی مواقیت الصلاۃ، صفحہ 52، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3974

تاریخ اجراء: 04 محرم الحرام 1447ھ / 30 جون 2025ء