
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر کوئی شخص بجلی بند ہونے کی صورت میں باجماعت نماز کے دوران موبائل جیب سے نکال کر اس کی روشنی چلا کر رکھ دے، تو کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر وہ شخص نماز پڑھ رہا تھا اور نماز پڑھتے ہوئے اس نے جیب سے موبائل نکال کر اس کا ٹارچ جلا کر رکھا، تو اس کی نماز ٹوٹ گئی، کیونکہ یہ عملِ کثیر ہے کہ ایسا کرنے والے کودور سے دیکھنے والا یہی سمجھے گاکہ یہ نمازمیں نہیں ہے اور اس عمل کا تعلق نہ نماز کے اعمال سے ہے اور نہ یہ اصلاح نماز کے لیے کیا گیا ہے اور ہر ایسا عمل کثیر کہ جس کا تعلق نہ نماز کے اعمال سے ہو اور نہ وہ اصلاح نمازکے لیے کیا گیا ہو، اس کے کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
درِ مختار میں ہے
(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها و لا لاصلاحها، و فيه أقوال خمسة، أصحها (ما لا يشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها)
ترجمہ: اور ہر وہ عمل کثیر نماز کو فاسد کر دیتا ہے جو نماز کے اعمال سے نہ ہو اور نہ ہی نماز کی اصلاح کے لیے ہو، اور اس (یعنی عمل کثیر کی تعریف)کے بارے میں پانچ اقوال ہیں، اور ان میں سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ جس کام کی وجہ سے دور سے دیکھنے والا اس بات میں شک نہ کرے کہ یہ کام کرنے والا نماز میں نہیں ہے۔(بلکہ اسے دیکھ کر اس کا گمان غالب ہو کہ یہ نماز میں نہیں ہے۔) (الدر المختار، صفحہ 86، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے "عملِ کثیر کہ نہ اعمالِ نماز سے ہو، نہ نما زکی اصلاح کے ليے کیا گیا ہو، نماز فاسد کر دیتا ہے، عملِ قلیل مفسد نہیں۔ جس کام کے کرنے والے کو دُور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے، بلکہ گمان غالب ہو کہ نماز میں نہیں، تو وہ عملِ کثیر ہے اور اگر دُور سے دیکھنے والے کو شبہہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں، تو عملِ قلیل ہے۔" (بہار شریعت، جلد 01، حصہ 03، ص 609، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3977
تاریخ اجراء: 05 محرم الحرام 1447ھ / 01 جولائی 2025ء