مبین نام کا مطلب اور مبین نام رکھنے کا حکم

بچے کا نام  مبین  رکھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا  مبین  نام کسی بچے کا رکھنا درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بچے کا نام "مبین" رکھنا فقط درست ہی نہیں بلکہ اچھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام "مبین" ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ اولاً بیٹے کا نام صرف ’’محمد‘‘ رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں نام ’’محمد‘‘ رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اورظاہریہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام ’’محمد‘‘ رکھنے کی ہے، اور پھر پکارنے کے لیے ’’مبین‘‘ یا "غلام مبین" رکھ لیجیے۔

"الریاض الانیقۃ فی شرح اسماء الخلیقۃ"میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "المبین" ترجمہ: حق و باطل کو واضح کرنے والے۔ (الریاض الانیقۃفی شرح اسماء الخلیقۃ، صفحہ 35، دار الکتب العلمیۃ)

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة

ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، ج 16، ص 422، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن

ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج 6، ص 417، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3975

تاریخ اجراء: 05 محرم الحرام 1447ھ / 01 جولائی 2025ء