
ہوٹل میں دئیے جانے والے صابن، شیمپو وغیرہ گھر لاسکتے ہیں؟
سوال: ہوٹل میں گیسٹ(Guest) کو استعمال کرنے کے لیے جو صابن، شیمپو یا شاور جَیل وغیرہ دیتے ہیں، انہیں گھر لانا کیسا؟ سائل: علی رضا
والد اپنے نابالغ بیٹے کا سونا قرض لے سکتا ہے ؟
جواب: مال کسی اور کو قرض دینے یا اپنے لیے لینے کی اجازت نہیں۔ قرض دینے کے متعلق مبسوط للسرخسی میں ہے:” وفی الأب روايتان، وفي الرواية الظاهرة يقول:لا يملك ...
گفٹ میں ملے ہوئے پلاٹ کی زکوۃ کا حکم؟
جواب: مالِ تجارت ۔ (3) چرائی کے جانور ۔ مالِ تجارت کے لیے ضروری ہے کہ چیز خریدتے وقت آگے بیچنے کی نیت ہو ، اگر چیز خریدی ہی نہیں ، بلکہ کسی نے گفٹ کی یا ورا...
سوال: قرآن میں ایک جگہ موجود ہے کہ کفار کے مال سے کبھی تعجب نہ کرنا، اس سے کیا مراد ہے؟
سوال: کچھ لوگ اپنی زندگی میں کسی نیک کام سے متعلق وصیت کر جاتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا مال فلاں نیک کام مثلا : مسجد مدرسے ، دینی طالبِ علم یا کسی غریب یتیم کی مدد میں خرچ کر دیا جائے ، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اسلام ہمیں اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ہی اپنے مال کے بارے میں کوئی وصیت کر جائیں کہ ہمارے فوت ہونے کے بعد ہمارا یہ مال کسی نیک کام میں یا صدقہ جاریہ کے طور پر خرچ کر دیا جائے ؟ اگر اسلام اس کی اجازت دیتا ہے، تو اس کی مقدار کیا ہے ؟ یعنی کس حد تک ہم اپنے مال سے وصیت کر سکتے ہیں ؟
مضاربت ختم کرنی ہے تو کیا مضارب خریدا ہوا مال بیچ سکتا ہے؟
جواب: اپنا نفع حاصل کرلیں اس سامان کو بیچنے سے رب المال (یعنی مضاربت میں رقم لگانے والا ، مالک )منع نہیں کرسکتا ،البتہ رب المال کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ م...
مخصوص دکانداروں کو مال بیچنے کی شرط لگانا کیسا ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک سیلز مین ہے جو اپنی رقم سے کمپنی سے مال خریدتا ہے ، کمپنی کا ملازم نہیں ہے ، کمپنی مال بیچنے میں یہ شرط لگاتی ہے کہ آپ کا یہ روٹ ہے یعنی مخصوص دکانداروں کو مال بیچنے کی شرط لگاتی ہے۔ کیا یہ بیع جائز ہے ؟اور زید ان مخصوص دکانداروں کے علاوہ کسی کو وہ مال بیچ سکتا ہے یا نہیں؟
چالیسویں پر کپڑے اور چیزیں دینے کا حکم
جواب: مال سے کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور دوسری یہ کہ ترکہ یعنی میت کے چھوڑے ہوئے مال سے صدقہ کرے ۔ اس کی اجازت اُسی صورت میں ہے کہ جب سارے ورثا بالغ ہ...
چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچنا کیسا؟
سوال: (1)مارکیٹ میں خرید و فروخت کا ایک طریقہ یہ پایا جاتا ہے کہ کوئی گاہک دکان پر آ کر کسی چیز کو خریدنا چاہتا ہے اور دکاندار کے پاس وہ مال ابھی موجود نہیں ہوتا، تو وہ گاہک کو مال کا نمونہ (Sample)دکھا کر اسے مخصوص مقدار میں وہ مال بیچ دیتا ہے اور پھر کسی دوسرے دکاندار کہ جس کے پاس وہ چیز موجود ہوتی ہے، اُسے کہہ دیتا ہے کہ میرے فلاں گاہک کو وہ چیز اتنی مقدار میں دے دو اور جب گاہک وہ چیز لے لیتا ہے ،تو پہلا دکاندار اس چیز کا ریٹ وغیرہ معلوم کر کے دوسرے دکاندار کو رقم کی ادائیگی کر دیتا ہے، یعنی پہلا دکاندار چیز خریدنے سے پہلے ہی گاہک کو بیچ چکا ہوتا ہے، کیا یہ طریقہ شرعا درست ہے؟ (2)اور اگر اس طریقے سے چیز کو بیچ دیا جائے کہ پہلا دکاندار دوسرے سے کوئی چیز خرید لے اور اس کے بعد اپنے گاہک کو بیچے اور دوسرے دکاندار کو کہہ دے کہ میں نے آپ سے جو چیز خریدی ہے، وہ آگے بیچ دی ہے، لہذا آپ ڈائریکٹ میرے گاہک کو ہی وہ چیز ڈیلیور کر دیں، تو ایسا کرنا کیسا؟ (3)اگر یہ طریقے درست نہیں، تو کیا انداز اختیار کیا جا سکتا ہے، جو شرعاً درست ہو؟