
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ہوٹل میں گیسٹ(Guest) کو استعمال کرنے کے لیے جو صابن، شیمپو یا شاور جَیل وغیرہ دیتے ہیں، انہیں گھر لانا کیسا؟ سائل: علی رضا
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جب کسی چیز کے متعلق ملکیت یا اباحت کی صراحت نہ ہو، تو ایسی صورت میں دار ومدار عُرف پر ہوتا ہے اور مختلف ہوٹلز سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق ہوٹل میں آنے والے گیسٹ (Guest) کو مہیا کیا جانے والا صابن، شیمپو یا شاور جَیل عموماً بطورِ اباحت دیا جاتا ہے، یعنی جب تک گیسٹ ہوٹل میں رہے، انہیں استعمال کر سکتا ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اِن چیزوں کو گھر لے آنا، بلا اِجازتِ شرعی دوسرے کا مال ناحق طریقے سے استعمال کرنا ہے، جو ناجائز ہے، البتہ ہوٹل وغیرہ میں دی گئی ایسی چیز کہ جس کے متعلق تملیک کی صراحت ہو، جیسے "Gift For You" وغیرہ لکھا ہو یا کوئی بھی ایسا جملہ جو ملکیت کا فائدہ دے رہا ہو، تو ایسی صورت میں اس چیز کو ہوٹل میں استعمال کرنا اور پھر گھر لانا دونوں جائز ہوں گے۔
اس سے ملتی جلتی صورت، یہ مسئلہ ہے کہ دعوت میں میزبان کی طرف سے سامنے رکھا گیا کھانا میزبان کی ملکیت پر ہی قائم رہتا ہے، مہمان کی مِلک میں نہیں ہوتا، میزبان کی طرف سے مہمان کے لیے صرف کھانے کے لیے مباح ہوتا ہے، اِسی لیے اگر دسترخوان پر کوئی فقیر آ جائے، تو مہمان کے لیے جائز نہیں کہ اسے ازخود میزبان کے رکھے ہوئے کھانے میں سے کچھ دے، کیونکہ میزبان نے بطورِ اباحت کھانے کے لیے رکھا ہے، کسی کو دینے کے لیے نہیں۔
جب کسی چیز کے متعلق ملکیت وغیرہ کی صراحت نہ ہو، تو اس کا دار ومدار عُرف پر ہوگا، چنانچہ امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”طالب علم کو لکڑیاں وغیرہ دیں کہ اپنی کتابوں میں صرف کیجئے، ہبہ قرار پائے گا کہ یہاں عرف قاضی تملیک ہے۔۔۔اسی طرح اگر کسی کو مثلاً قاب پلاؤ یا اور کوئی عاریت کا نام کر کے دیا، تو قرض ٹھہرے گا۔۔۔اور (اگر)ان میں باہم دوستی واتحاد ہے، تو اباحت ”لمکان العرف“ (اباحت ہے، کیونکہ یہی عرف ہے۔)۔۔۔بالجملہ مدار عُرف پر ہے۔ــــ“ (فتاوی رضویہ، جلد16، صفحہ92، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
عرف و عادت فیصلہ کرنے والا ہے۔ علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ /1562ء) لکھتے ہیں: ”العادۃ محکمۃ“ ترجمہ: عرف و عادت فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الاشباہ و النظائر، صفحہ 79، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت )
بیان کردہ مسئلہ میں عرف اباحت کا ہے اور اِباحت میں چیز دوسرے کی ملکیت میں نہیں جاتی، چنانچہ اباحت کی شرعی حیثیت کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:
”یصرحون فی غیر ما موضع ان المباح لہ انما یتصرف علی ملک المبیح لاحظ لہ من الملک اصلا“
ترجمہ: کئی مقامات پر علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ جس کے لیے کوئی چیز مباح کی جائے، تو وہ مباح کرنے والے کی ملکیت پر ہی اسے استعمال کرتا ہے، اس کا ملکیت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ (فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ541، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
لیکن جب عرف کے خلاف صراحت موجود ہو، تو اس کا اعتبار نہیں، جیسا کہ شمس الآئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483ھ /1090ء) لکھتے ہیں:
”العادة تجعل حكما إذا لم يوجد التصريح بخلافه، فأما عند وجود التصريح بخلافه يسقط اعتباره“
ترجمہ: جب عرف و عادت کے خلاف صراحت موجود نہ ہو، تو اسے فیصلہ کرنے والا قرار دیا جائے گا، لیکن اس کے خلاف صراحت موجود ہونے کی صورت میں اس کا اعتبار ساقط ہوجائے گا۔ (شرح السیر الکبیر، جلد 1، صفحہ 208، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت )
کس کا مال ناحق کھانے کے متعلق قرآنِ پاک میں ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔ (پ 05، النساء: 29)
اس آیتِ مبارکہ کے متعلق امام ابوبکر احمد بن علی جَصَّاص رازی حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 370ھ/ 980ء) لکھتے ہیں:
”فمنع كل أحد أن يأكل مال غيره إلا برضاه“
ترجمہ: لہٰذا ہر شخص کے لیے منع ہے کہ وہ کسی دوسرے کا مال اس کی رضامندی کے بغیر کھائے۔ (احکام القرآن للجصاص، جلد 3، صفحہ 154، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت )
مسند احمد میں فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے:
”لا يحل للرجل أن يأخذ عصا أخيه بغير طيب نفسه وذلك لشدة ما حرم رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم من مال المسلم على المسلم“
ترجمہ: کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا عصا بغیر اس کی رضامندی کے لے اور یہ اس لیے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سختی کے ساتھ ایک مسلمان کا مال دوسرے مسلمان پر حرام فرمایا ہے۔ (مسند احمد، جلد 39، صفحہ 19، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ )
دعوت کے کھانے میں بھی اباحت ہوتی ہے، تملیک نہیں، کھانا میزبان کی ملک پر رہتے ہوئے ہی کھایا جاتا ہے اور مہمان کو صرف کھانے کی اجازت ہوتی ہے، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے: ”دعوت کا کھانا کھاتے وقت بھی میزبان ہی کی مِلک پر کھایا جاتاہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد2، صفحہ530، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
یونہی بہار شریعت میں ہے: ”دوسرے کے یہاں کھانا کھارہا ہے، سائل نے مانگا، اس کو یہ جائز نہیں کہ سائل کو روٹی کا ٹکڑا دے دے، کیونکہ اس نے اس کے کھانے کے لیے رکھا ہے، اس کو مالک نہیں کردیا کہ جس کو چاہے دے دے۔“ (بھار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 393، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9469
تاریخ اجراء : 26صفر المظفر 1447ھ/21اگست2025ء