
خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے شریعت کا حکم
جواب: اولادنہ ہو اور وہ چاہے تو دوائیاں وغیرہ استعمال کرنے کے باوجود اولاد ہوجائے) اختیار کیا جاسکتا ہے جبکہ اس سے ضررنہ ہو۔ لیکن ایسا طریقہ اختیار نہ کیا ج...
علمِ جفر کیا ہے؟ علم جفر کی تعریف اور شرعی حیثیت
جواب: اولادہ یعر فونہما ویحکمون بھما وفی کتاب قبول العھدالذی کتبہ علی بن موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما الی المامون انک قد عرفت من حقوقنا ما لم یعرفہ اباؤک فقل...
موبائل اکاؤنٹ میں رقم رکھ کر فری منٹس لینا
جواب: مالک کردینا، جبکہ اس صورت میں مقصوداسے مالک کرنانہیں ہوتا،مالک کرنامقصودہوتا ، توپیسے واپس نہ لیے جاتے۔دررمیں ہے : ”ھی تملیک عین بلا عوض“ترجمہ:ہبہ نام...
جواب: مال کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کی علامت سمجھی جاتی ہے ، اس لیے بہت عمدہ ہے کہ ہم اپنے نجی، سماجی اور معاشرتی معاملات میں حتی الامکان اس کا اعتبار کریں۔...
پرائز بانڈ کی فوٹو کاپیوں کی خریدوفروخت کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ پرائز بانڈکی خریداری، اس پر درج قیمت کے علاوہ مزید اضافی رقم کے ساتھ کی جاتی ہے ۔جس کو عرف میں Onپر خریدنا، بیچنا بھی کہا جاتا ہے ۔پرائز بانڈ مارکیٹ میں ایک طریقہ یہ بھی رائج ہوتا جارہا ہے، کہ انعامی بانڈزکی سیریز کی خرید وفروخت یوں کرتے ہیں کہ مثلاًاس سیریز654301 کی پوری سیریز سو بانڈز پر مشتمل خریدلیتے ہیں، اس طرح کہ اس سیریز کے پہلے بانڈ کی فوٹو کاپی بیچتے ہیں اوربیچنے والاحکومت کی طرف سے جاری کردہ پرائزبانڈاپنے ہی پاس رکھتاہےاورخریدارکوفقط فوٹو کاپیاں دیتاہےاوراس کے بدلے ہر پرائز بانڈ پرجومخصوص رقم لی جاتی ہے وہ وصول کرلیتاہے اوراس طرح جس کے پاس مثال کے طورپرساڑھے سات ہزاروالے 100پرائزبانڈزحاصل کرنے کے لئےان کی قیمت7,50,000(ساڑھے سات لاکھ)روپے نہ بھی ہوں وہ شخص بھی بس اضافی چارجزجیسے 2500 روپےدے کران کی 100فوٹوکاپیاں حاصل کرسکتاہے،پھرجب تک تاریخ نہ آجائے وہ بیچنے والاان سیریز کے پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیاں کسی اورکو نہیں دے سکتا۔اگر مخصوص تاریخ پران پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کےنمبرزمیں سے کسی پرانعام نکل گیاتواس خریدار کوپوراانعام مل جاتاہےاور اگرانعام نہیں نکلاتووہ فوٹوکاپیاں ضائع قرارپاتی ہیں اوردیئےگئے اضافی چارجزکامالک پرائزبانڈکی فوٹوکاپیاں بیچنے والا ہی قرار پاتا ہے ۔ میراسوال یہ ہے کہ پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کی خریدوفروخت جائزہے یانہیں؟ سائل:شجاع عطاری(3/A-5،نارتھ کراچی)
دوکان پر کوئی شخص چیز رکھ کر بھول گیا ، تو اب کیا حکم ہے ؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے پاس دوکان میں کوئی کسٹمر مال خریدنے آیااورکسی وجہ سے اپنی کوئی چیزہمارے پاس رکھواگیاکہ میں آگے کسی اوردوکان سے کوئی دوسری چیزخریدکرلاتاہوں،آپ اسے اپنےپاس رکھ لیں،توہم اس کی وہ چیزاپنے پاس رکھ لیتے ہیں،ان میں سے بعض لوگ توواپس اپنی چیزلے جاتے ہیں ،لیکن بعض ایسے بھی ہوتےہیں کہ وہ پھرواپس ہی نہیں آتے،سمجھ میں یہی آتاہے کہ وہ بھول جاتے ہوں گے یاپھرکسی دوسرے کام کی غرض سے دورنکل جاتے ہوں گے اورپھرواپس آنے کی تکلیف نہ کی۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بھی علم نہیں ہوتاکہ وہ شخص کون تھا،کہاں کارہنے والاتھا۔توایسی صورت میں ہم دوکانداراس چیزکاکیاکریں؟وہ چیز بعض اوقات ایسی بھی ہوتی ہے کہ جلدخراب ہوجائے گی،اس کوسنبھالنامشکل ہوتاہے۔ جیسے پھل یاسبزی وغیرہ کہ یہ اگرایک دودن تک دوکان میں پڑی رہے ،توخراب ہوجاتی ہے ۔توہمیں بتائیں کہ اس کاکیاکریں؟
کفار کے استعمال شدہ کپڑے فروخت اور استعمال کرنے کا حکم؟
سوال: زید کے کاروبار کا طریقہ یوں ہے کہ سردیوں کے موسم میں یورپین ممالک سے کفار کے استعمالی کپڑے مثلاً:جیکٹ ،جرسیاں ،جرابیں اور گرم ٹوپیاں وغیرہ آتی ہیں،جو پاکستان کے بڑے بڑے ڈیلر خرید لیتے ہیں،پھر زید ان سے یہ چیزیں انتہائی سستے داموں خرید کر بازار میں مسلمانوں کو فروخت کر دیتا ہے ،جبکہ بکر کا کہنا ہے کہ زید کا کا روبار شریعت کے مطابق نہیں،پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں چیز کی اصلی قیمت کے علاوہ دُگنا اور چگنا نفع لینے کی اجازت نہیں اور دوسری بات یہ کہ کفار کے استعمالی کپڑوں کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ یہ پاک ہیں یا ناپاک تو مسلمانوں کو استعمال کے لیے یہ فروخت کرنا صحیح نہیں ،برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ بکر کا قول واقعی درست ہے یا نہیں ؟
اس شرط پر قرض دینا کہ مقروض اسے مارکیٹ سے کم ریٹ پر اشیاء بیچے گا؟
جواب: مال مثلی لاٰخر، لیرد مثلہ‘‘ترجمہ:مخصوص عقد جو دوسرےکومثلی مال دینے پر وارد ہو،تاکہ وہ(بعد میں )اس کی مثل واپس کرے۔ (تنویر الابصار مع در مختار،جلد7،ص...
رمضان سستا بازار میں چیزیں مہنگی بیچنے کا شرعی حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گورنمنٹ کی طرف سے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں رمضان بازار لگائے جاتے ہیں،جن میں دُکانداروں کے لیے مناسب نفع رکھ کرحکومت اشیائےخوردونوش پرقیمتیں متعین کردیتی ہے اورقانون نافذکرنے والے ادارے خوب متحرک ہوتے ہیں کہ اگرکوئی دُکاندارمتعین قیمت سے زیادہ میں فروخت کرے،تواس کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہیں،یہاں تک کہ دُکانداریااس کاسامان اٹھاکرلے جاتے ہیں یا مالی جرمانہ عائد کرتے ہیں اوراسے ذلت ورسوائی کاسامناکرناپڑتاہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت کااشیائےخوردونوش کی قیمتوں کومتعین کرناکیساہے؟کیایہ بیع المُکرَہ میں داخل ہے؟نیزدُکانداروں کامتعین قیمت سے زیادہ میں بیچنا کیسا ہے؟جبکہ ذلت ورسوائی میں پڑنے کاغالب اندیشہ ہو؟اگردُکاندارمتعین قیمت سے زیادہ پرفروخت کرتے ہیں،توکیایہ عقد صحیح اوراضافہ جائزو حلال ہوگا یا حرام ؟