کیا فیملی پلاننگ (خاندانی منصوبہ بندی) کرنا جائز ہے؟

خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے شریعت کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے رہنمائی فرمائیے گا کہ شریعت میں اس کی اجازت ہے؟ اور اگر اجازت ہے تو کون سا طریقہ اپنایا جائے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

خاندانی منصوبہ بندی کے لیے آپریشن کروا کر بچہ دانی نکلوادینا یا رَگ کٹوا کر یا انجیکشن وغیرہ لگوا کر، الغرض کسی طریقے سے پیدائش کی صلاحیت مستقل طور پر ختم کر ادینا، ناجائز و حرام ہے؛ کیونکہ یہ مثلہ ہے یعنی اس میں اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی چیز کو بدلنا ہے، جس کی حرمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ! اگر کسی جائزمعقول وجہ سے میاں بیوی عارضی طور پر بچوں کی پیدائش سے رکنا چاہیں، مثلا پہلا بچہ چھوٹا ہے فوراً دوبارہ حمل ہونے سے اس کی صحت خراب ہوگی یا بیوی کی صحت اچھی نہیں ہے کہ جلدی جلدی بچے کی پیدائش سے اس کی صحت اور خراب ہوجائے گی تو اس کے لئے عارضی وقفے والا کوئی جائز طریقہ (انجکشن، گولیاں، کنڈم وغیرہ) درست عقیدے کے ساتھ (یعنی یہ عقیدہ رکھ کرکہ یہ دوائیاں محض اسباب ہیں،مؤثرحقیقی اللہ تعالی ہے، وہ چاہے تو دوائیوں وغیرہ کے بغیربھی اولادنہ ہو اور وہ چاہے تو دوائیاں وغیرہ استعمال کرنے کے باوجود اولاد ہوجائے) اختیار کیا جاسکتا ہے جبکہ اس سے ضرر نہ ہو۔ لیکن ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو شرعا جائز نہ ہو مثلا بچہ دانی کے منہ پر رنگ لگوانا کہ اس میں بے پردگی ہوتی ہے جوکہ شرعا جائز نہیں، البتہ! کسی عورت کا شوہر ڈاکٹر ہو اور وہ رنگ لگانا جانتا ہو تو اسے اپنی بیوی کورنگ لگانے کی اجازت ہے۔

نیز یہ یاد رہے کہ! محض فقر و تنگدستی کے خوف سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ بلاشبہ ہر جاندار کو رزق دینے والا اللہ تعالی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تووہ اس کا بھی رزق عطا فرما دے گا۔

اللہ تبارک و تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا

ترجمہ کنز العرفان: اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔ (القرآن، سورہ ھود، پارہ 12، آیت: 6)

مثلہ کے بارے بخاری شریف میں ہے

عن النبي صلى اللہ عليه و سلم: أنه نهى عن النهبة و المثلة

ترجمہ: حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے لوٹ مار کرنے اور مثلہ سےمنع فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الذبائح و الصید، باب ما یکرہ من المثلہ۔۔۔، جلد 7، صفحہ 94، دار طوق النجاۃ)

پردے کے بارے اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے:

وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ

ترجمہ: اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ (پ 18، سورۃ النور، آیت 31)

اس کے تحت تفسیر بغوی میں ہے

و یحفظن فروجھن، عما لا یحل، و قیل أیضا: یحفظن فروجھن یعنی یسترنھا حتی لا یراھا أحد۔

ترجمہ: اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اس سے جس کے لئے (تم )حلا ل نہیں۔او ر اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروکی ایک تفسیریہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان کوچھپاؤتاکہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ (تفسیر بغوی، سورۃ النور، آیت 31، جلد 3، صفحہ 402، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

صحیح مسلم کی حدیث ہے

أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:لا ینظر الرجل إلی عورۃ الرجل و لا المرأۃ إلی عورۃ المرأۃ

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: کوئی مرد دوسرے مرد کی شرمگاہ کو نہ دیکھے اور کوئی عورت دوسری عورت کی شرمگاہ کو نہ دیکھے۔ (صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب تحریم النظر، جلد 1، صفحہ 266، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے

نظر المرأۃ إلی المرأۃ کنظر الرجل إلی الرجل

ترجمہ: عورت کے عورت کو دیکھنے کا وہی حکم ہیں جو مرد کے مرد کو دیکھنے کا ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراھیۃ، الباب الثامن فیما یحل...إلخ، جلد 5، صفحہ 327، دار الفکر، بیروت)

فتاوی بحرالعلوم میں ہے ”نس بندی کسی صورت جائز نہیں، یہ ناجائزو حرام ہے۔ البتہ ضبط تولید کے اور طریقے جیسے کنڈوم لگانے یا کھانے کی مانع حمل دوائیں صحیح عقیدہ کے ساتھ یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہوئے یہ طریقے اسباب و علاج ہیں، مؤثر حقیقی اللہ تعالی ہے، جائز ہے۔“ (فتاوی بحرالعلوم، جلد 02، صفحہ 608، شبیر برادرز، لاھور)

مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” آپریشن کر کے حمل کی صلاحیت کو ضائع کر دیا جائے تو یہ بھی نا جائز و حرام ہے اور مثلہ کے حکم میں ہے۔ مثلہ کے معنی یہ ہیں کہ کسی عضو کو ضائع کر دینا۔ اس میں بھی رحم کو ضائع کر دیا جاتا ہے، جو عضو کے ضائع کرنے کے حکم میں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایسی دوائیں استعمال کی جائیں کہ جب تک دوا کا استعمال جاری رہے، حمل قرارنہیں پائے گا، اور جب دوا کا استعمال بند کردیا جائے، تو حمل قرار پاسکتا ہے، اس میں اگر کوئی معقول وجہ ہے، مثلا پہلا بچہ چھوٹا ہے فوراً دوبارہ حمل ہونے سے اس کی صحت خراب ہوگی یا بیوی کی صحت اچھی نہیں ہے کہ جلدی جلدی بچے کی پیدائش سے اس کی صحت اور خراب ہوجائے گی تو ان دواؤں کا استعمال جائز ہے اور یہ بالکل عزل (شوہر مادہ منویہ کو باہرخارج کرے) کے حکم میں ہے اور یہ جائز ہے۔“ (وقار الفتاوی، جلد 03، صفحہ 126، بزم وقار الدین، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4134

تاریخ اجراء: 25 صفر المظفر 1447ھ / 20 اگست 2025ء