
دوکان کے سامنے ٹھیلا لگانے والے سے کرایہ لینا کیسا اور اس ٹھیلے والے سے خریداری کرنا کیسا ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ دوکان کے سامنے جواسٹالزیاٹھیلے لگے ہوتے ہیں،وہ سرکاری جگہ پرلگے ہوتے ہیں ،لیکن دوکاندار بعض اوقات انہیں جگہ فروخت کردیتے ہیں یاان سے ماہانہ کرایہ وصول کرتے ہیں ،حالانکہ وہ جگہ دوکاندارکی نہیں ہوتی۔کیا دوکاندارکااپنی دوکان کے سامنے والی سرکاری جگہ بیچنایاکرایہ پر دیناشرعا جائزہے؟نیزچلتے رستے میں بیٹھ کرسامان فروخت کرناشرعاجائزہے یا نہیں؟
سرکاری جگہ کرائے پہ دینے کا حکم
سوال: ایک شخص کا انتقال ہوا ،فوت ہونے والے کی دکانیں مارکیٹ میں موجود ہیں،مرحوم کے بیٹوں نے دکانوں کے سامنے سرکاری جگہ جو راستہ ہے، اس جگہ کو ٹھیلے والوں کو کرائے پر دیا ہوا ہے ،تو پوچھنا یہ ہے کہ اس جگہ کو کرائے پردیناجائز ہے اور کیا اس سے حاصل ہونے والی آمدن میں وراثت کے مال کی طرح تقسیم کاری کی جائے گی؟
کیا راستوں میں یا دُکان و ہوٹل وغیرہ کے سامنے اسٹال لگانا ، جائز ہے ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1) مارکیٹ میں ہوٹلوں اور دکانوں کے سامنے کچھ خالی جگہ موجود ہوتی ہے ،جو ہوٹل یا دکان کے مالکان کی نہیں ،بلکہ سرکاری جگہ ہوتی ہے اور لوگوں کے راستے کے لیے مخصوص ہوتی ہے ،اب اگر کوئی شخص وہاں اسٹال وغیر ہ لگانا چاہے، تو ہوٹل یا دکان والے اس سے ماہانہ کرایہ وصول کرتے ہیں ،کیا یہ کرایہ وصول کرنا ،جائز ہے ؟ (2) ان لوگوں کا راستے میں اسٹال لگانا کیسا ہے؟بالخصوص جب ان کی وجہ سے راستہ تنگ پڑ جائے اور گزرنے والوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے ۔
شیئرز کی خرید و فروخت اور شیئرز کے کاروبار کی حیثیت
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کمپنیوں کے شیئرز دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن پر نفع و نقصان ہوتا ہے۔ دوم وہ جن پر فقط نفع ہو ، جس کو ہم سود کہتے ہیں ۔جناب عالی مندرجہ بالا دوسری قسم تو مکمل حرام ہے ، کیونکہ یہ سود ہے۔مگر میراآپ سے سوال یہ ہے کہ پہلی قسم جس میں شیئرز ہولڈر اپنے حصے کے شیئرز پر نفع بھی لے رہا ہے اور نقصان بھی برداشت کررہا ہے ، کیا وہ جائز نہیں؟ علماء و مفتیان کرام پہلی قسم یعنی نفع و نقصان والے شیئرز کو بھی حرام قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہر کمپنی چونکہ قرضہ لیتی یا دیتی ہے ، تو اس قرضہ کے لینے ،دینے پر وہ سود کماتی یا دیتی ہے ، لہٰذا چونکہ کمپنی کی کمائی میں سود شامل ہوگیا ، لہٰذا اس کمپنی کے شیئرز خواہ وہ مساواتی ہوں ، وہ حرام ہیں۔علماء کرام کے اس موقف پر مجھ ناچیز اور کم علم رکھنے والے شخص کا سوال ہے : جیسے میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور میری تنخواہ بھی سرکاری خزانے سے میرے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے ،توکیا آپ اس سرکاری تنخواہ و پنشن کو بھی حرام قرار دیں گے؟کیونکہ سرکار بھی تو دوسرے ملکوں اور بینکوں سےقرضہ لیتی اور خزانے سے پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کو قرضہ دیتی ہے۔اگر سرکاری تنخواہ و پنشن حرام ہے ، تو بڑے بڑے علماء ومفتیان کرام بھی تو سرکارسے تنخواہ و پنشن لیتے ہیں ،تو کیا وہ بھی حرام کمارہے ہیں؟ میرا سوال آپ سے مندرجہ بالا سوالات و حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہے کہ مساواتی شیئرز جائز ہیں یا نہیں؟
ہلاکو خان نے جب بغداد پر حملہ کیا تھا تو علماء آپس میں مناظرے کر رہے تھے؟
جواب: سرکاری خزانے میں خرد برد کر کے کی جاتی ہے، تو یہ بتا دیا جائے کہ کیا روڈ، عمارتیں، پُل، پارک وغیرہ بنانے کے سرکاری کاموں کے ٹھیکے دینے اور ٹھیکے لینے ...
کیا سرکاری اداروں سے ملنے والی پنشن سود ہے ؟
سوال: سرکاری اداروں میں جو پنشن دی جاتی ہے لینا جائز ہے یا نہیں؟ اکثر لوگ کہتےہیں یہ سود کی رقم ہے؟
کیا شہر کی حدود ٹول پلازہ پر ختم ہوتی ہے ؟
جواب: سرکاری حدود کے اعتبار سے بنائے جاتے ہیں اور اِس کی تعمیر ومقامِ تعیین کے اعتبار سے سرکاری محکمے کے خاص معیارات ( Standards ) ہیں ، جبکہ دوسری طرف سفر...
تعلقات بنانے کیلئے سرکاری ملازم کو دعوت یا رقم دینا
سوال: لوگ سرکاری ملازم کو کام کر دینے یا اس سےاپنا تعلق بہتربنانے کے لیے اس کو رقم دیتے ہیں یا پھر اس کی دعوتیں کرتے ہیں تاکہ وقتِ ضرورت یہ ہمارے کام آ سکے، اس کا کیا حکم ہے؟
سوال: کاروبار کے لیے سرکاری بینک سے سودی قرض لینا کیسا ہے ، جبکہ کاروبار میں اتنا قرض سرکاری بینک ہی سے ممکن ہے اور ہمارے یہاں کے بینک سود پر قرض دیتے ہیں ۔ اور بڑی رقم یا کاروباری قرض لینے پر تقریبا 25 سے 30 فیصد معاف کر دیتا ہے ؟
اوور ٹائم دئیے بغیر اس کے پیسے لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں سرکاری نوکری کرتا ہوں، وہاں تنخواہ کے علاوہ اوور ٹائم بھی دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اوور ٹائم نہیں کرتے ان کو بھی اوور ٹائم دے دیا جاتا ہے جیسے کسی کا ڈیوٹی ٹائم پانچ بجے تک ہے تو اس کو آٹھ یا نو بجے تک کا اوور ٹائم دے دیتے ہیں۔ لیکن لوگ اس اوور ٹائم میں کام نہیں کرتے اور معاوضہ وصول کر لیتے ہیں یہ بات افسرانِ بالا کے بھی علم میں ہے، ایم ڈی کو بھی معلوم ہے۔ یوں تقریباً پچیس سے پچاس کروڑ روپے اوور ٹائم کی مد میں جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے جائز کہتے ہیں کہ تنخواہیں کم ہیں اورتنخواہ کافی عرصے بعد بڑھتی ہے اس لئے اوور ٹائم لینے میں کوئی مضائقہ نہیں حالانکہ جن لوگوں کی تنخواہ زیادہ ہے وہ لوگ بھی لیتے ہیں اور افسرانِ بالا بھی یہ بات جانتے ہیں تو کیا اس طرح اوور ٹائم لینا جائز ہے؟