سرکاری جگہ پر ٹھیلے سے کرایہ لینا اور خریداری کرنا کیسا؟

دوکان کے سامنے ٹھیلا لگانے والے سے کرایہ لینا کیسا اور اس ٹھیلے والے سے خریداری کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دوکان کے سامنے جو اسٹالز یا ٹھیلے لگے ہوتے ہیں، وہ سرکاری جگہ پرلگے ہوتے ہیں، لیکن دوکاندار بعض اوقات انہیں جگہ فروخت کردیتے ہیں یا ان سے ماہانہ کرایہ وصول کرتے ہیں، حالانکہ وہ جگہ دوکاندار کی نہیں ہوتی۔ کیا دوکاندارکا اپنی دوکان کے سامنے والی سرکاری جگہ بیچنا یا کرایہ پر دینا شرعا جائزہے؟ نیزچلتے رستے میں بیٹھ کرسامان فروخت کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

دوکاندارکااپنی دوکان سے باہررستے پر لگے ٹھیلے یا اسٹالز کی جگہ فروخت کرنا یا کرایہ پر دینا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ دوکان سے باہر رستے میں جس جگہ پر ٹھیلے یا اسٹالز لگے ہوتے ہیں وہ جگہ گورنمنٹ کی ملکیت میں ہوتی ہے، دوکاندار کی نہیں اور انسان جس چیز کا مالک نہ ہو، اسے بیچنے سے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے، نیز بیع اور اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بیچنے والا اور کرایہ پر دینے والا، چیز کا مالک بھی ہو، جبکہ دوکاندار دوکان سے باہررستے کی جگہ کا مالک نہیں ہوتا، لہذا نہ یہ بیچ سکتا ہے اور نہ ہی یہ کرایہ پردے سکتا ہے۔

راستے میں بیٹھ کرسامان فروخت کرنااس شرط کے ساتھ جائزہے کہ راستہ کشادہ ہو کہ ان کے بیٹھنے سے گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہواور قانوناً بھی اجازت ہو، کیونکہ اگران کے بیٹھنے سے گزرنے والوں کوتکلیف ہو جیسا کہ ہمارے ملک میں اکثر جگہوں پر تکلیف دہ صورت ِ حال ہی ہے یاخلافِ قانون ہونے کی صورت میں ذلت یا سزا اٹھانی پڑے گی یا رشوت دینی پڑے گی تو ان کاسامان فروخت کرنا،ناجائزہےاوراس صورت میں ان سے خریدنا بھی منع ہے، کیونکہ ان سے خریدنا ان کی ناجائز کام پر مدد کرنا ہے اور ناجائز کام پرمددکرنامنع ہے کہ جب لوگ ان سے خریدیں گے تو یہ وہیں پر بیچیں گے اورجب لوگ ان سے خریدنا چھوڑ دیں گے ، تو یہ بھی فروخت کرنا چھوڑدیں گے۔

جوچیزملکیت میں نہ ہو، اسے بیچنے کی ممانعت کے بارے میں جامع ترمذی میں ہے:

”قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم: لاتبع ما لیس عندک“

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا: جو چیز تمہاری ملکیت میں نہیں تو اسے فروخت نہ کرو۔ (جامع ترمذی، ج 02، ص 525، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی، بیروت)

مبسوط میں ہے:

”تأويل النهي عن بيع ما ليس عند الإنسان بيع ما ليس في ملكه فقال صلى الله عليه وسلم لا تبع ما ليس عندك“

ترجمہ: انسان کے پاس جو چیز موجود نہ ہو اسے بیچنے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس چیز کو بیچنا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے، کیونکہ رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تم اس چیز کو فروخت نہ کرو جو تمہارے پاس نہ ہو۔ (المبسوط للسرخسی، ج 13، ص 70، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”شرط المعقود علیہ ان یکون موجود اما لا متقوما مملوکا فی نفسہ،وان یکون ملک البائع فیما یبیعہ لنفسہ“

ترجمہ: معقود علیہ (جس چیز پر عقد ہو رہاہے) کی شرط یہ ہے کہ وہ موجود، مالِ متقوم اور مملوک ہو اور یہ کہ جس چیز کو بائع بیچ رہا ہے وہ اس کی ملکیت میں ہو۔ (رد المحتار، ج 05، ص 58، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ”بیع کے لیے چند شرائط ہیں: بائع و مشتری کا عاقل ہونا مبیع کا مملوک ہونا اور اگر بائع اس چیز کواپنے لیے بیچتا ہو تو اس چیز کا ملکِ بائع میں ہونا ضروری ہے۔“ (بھار شریعت، ج 02، ص 616، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

جو چیز ملکیت اور ولایت میں نہ ہو اسے اجارے پر نہ دینے کے بارے میں فتاوی ہندیہ میں ہے:

”إذا بنى المشرعة على ملك العامة ثم آجرها من السقائين لا يجوز سواء آجر منهم للاستقاء أو آجر منهم ليقوموا فيها ويضعوا القرب“

ترجمہ: جب کسی نے (دریا کے کنارے)عوام کی ملکیت پرگھاٹ بنایا پھر اس نے پانی پلانے والوں کو کرایہ پر دے دیا، تو یہ جائز نہیں، خواہ اجارہ پانی پینے پر کیا ہو یا وہاں قیام کرنے اور برتن رکھنے پر کیا ہو۔ (فتاوی ھندیہ، ج 04، ص 453، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

”و منها الملك و الولاية فلا تنفذ إجارة الفضولي لعدم الملك، و الولاية “

ترجمہ: اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط ملک اورولایت ہے، پس فضولی کا اجارہ کرنا ملک اور ولایت نہ ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع، ج 04، ص 177، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

راستہ میں سامان بیچنے کے بارے میں منحۃ السلوک میں ہے:

”(و يباح الجلوس في الطريق للبيع إذا كان واسعاً، لا يتضرر الناس به) أي بجلوسه (و لو كان الطريق ضيقاً: لا يجوز) لأن المسلمين يتضررون بذلك و قال عليه السلام: ”لا ضرر و لا ضرار في الإسلام“

ترجمہ: راستے میں اشیاء بیچنے کے لئے بیٹھنا جائز ہے، جبکہ راستہ کشادہ ہو کہ لوگوں کو اس کے بیٹھنے سے تکلیف نہ ہوتی ہو اور اگر راستہ تنگ ہو تو جائز نہیں، کیونکہ مسلمانوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے اور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اسلام میں نہ اذیت لینا ہے نہ دینا ہے۔ (منحۃ السلوک شرح تحفۃ الملوک، ج 01، ص 428، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

ضررنہ ہونے کی صورت میں خریدنا، جائز ہونے کے بارے میں فقیہ النفس امام قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:

”إن كان الطريق واسعاً لا يتضرر الناس بقعوده لا بأس بالشراء منه “

ترجمہ: اگر رستہ کشادہ ہے جس میں بیٹھنے سے لوگوں کو گزرنے میں تکلیف نہیں ہوتی، تو اس سے خریدنے میں کوئی حرج نہیں ۔ (فتاوی خانیہ، ج 02، ص 142، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ضرر دینے اور لینے سے بچنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’لا ضرر و لا ضرار، من ضار ضرہ اللہ، و من شاقّ شق اللہ علیہ‘‘

ترجمہ: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’نہ ضرر لو نہ ضرر دو۔ جو ضرر دے اللہ عزوجل اس کو ضرر دے گا اور جو مشقت میں ڈالے اللہ عزوجل اس کو مشقت میں ڈالے گا۔ (سنن الدار قطنی، ج 4، ص 51، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

خود کو ذلت میں ڈالنے سے بچنے کے متعلق جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، مشکوۃ المصابیح میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا ینبغی للمؤمن ان یذل نفسہ‘‘

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: مومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کرے۔ (جامع الترمذی، ابواب الفتن، باب ما جاء فی النھی عن سب الریاح، ج 02، ص 498، مطبوعہ لاھور)

امام محمود بن احمد عینی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:

’’اذلال النفس حرام‘‘

ترجمہ: نفس کو ذلت پر پیش کرنا حرام ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ، کتاب النکاح، باب فی الاولیاء و الاکفاء، ج 04، ص 619، مطبوعہ کوئٹہ)

خلافِ قانون امرکاارتکاب کرنےسے بچنے کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں: ’’ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاً بھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لئے جرمِ قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لئے پیش کرنا شرعاً بھی روا نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 20، ص 192، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ناجائز کام پر مدد کرنے کے ممنوع ہونے کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے:

﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾

ترجمۂ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔ (پارہ 6، سورۃ المائدہ، آیت 02)

مذکورہ بالا آیت کے تحت امام ابوبکر احمد الجصاص فرماتے ہیں:

’’﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾

نهی عن معاونۃ غیرنا علی معاصی الله تعالی‘‘

ترجمہ: آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن، ج 20، ص 429، مطبوعہ کراچی )

بیچنے کے ناجائز ہونے کی صورت میں اس سے خریدنے میں اس کی مدد کرنے کے بارے میں فقیہ النفس امام قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:

”و الشراء منه يكون حملاً له على المعصية و إعانة له على ذلك“

ترجمہ: اور اس سے خریدنا اسے گناہ پر ابھارنا اور گناہ پر اس کی مدد کرنا ہے۔ (فتاوی خانیہ، ج 02، ص 142، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7153

تاریخ اجراء: 13 جمادی الاولی 1442 ھ / 29 دسمبر2020ء