
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکےبارےمیں کہ ایک روحانی عامل ہیں وہ اپنے مریضوں کا علاج اس طرح کرتے ہیں کہ جس کا علاج کرناہوتاہے ،اس کے گھرجاکر ایک مرغ ذبح کرکے صدقہ کرتے ہیں،اس مرغ کو جب ذبح کیاجاتاہے ،تو ذبح کرنے سے بہنے والے خون میں سے کچھ خون ایک پانی کے ٹب میں ڈال دیاجاتاہے اور سب اہلِ خانہ کو یا سرپرستوں کو یاصرف مریض کو اس خون والے پانی سے نہانے کاکہاجاتاہےاور بعض اوقات جسم کے کسی حصے پر بھی یہ خون لگایا جاتا ہے،ان عامل کے مطابق اس طرح عمل کرنے سے بہت سارے نیگیٹواثرات اس گھر اور اس کے رہنے والوں سے ختم ہوجاتے ہیں۔تو اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طریقے کے مطابق علاج کرواناکیساہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جانور ذبح کرنے کے بعد بہنے والے خون سے جسم کو آلودہ کرنا اور پھر یہ خیال کرنا کہ اس سے برے (Negative)اثرات اس گھر اور اس کے رہنے والوں سے ختم ہوجاتے ہیں، یہ زمانہ جاہلیت کے فرسودہ و باطل خیالات و افعال میں سے ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عمل سے منع فرمایا ہے۔
اور مرغ کو ذبح کرنے کے بعد اس کی گردن سے بہنے والا خون جسے دمِ مسفوح کہا جاتا ہے، یہ حرام ہے اورپیشاب کی طرح ناپاک بھی ہےاور قوانین شریعت کی رو سے حرام چیز سے علاج کرنا، کروانا اگرچہ خارجی استعمال کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، جائز نہیں ہے، یونہی اس طریقہ علاج میں اپنے پاک جسم کو بلاضرورت شرعی ناپاک کرنابھی ہے، جبکہ شریعت مطہرہ میں بلاضرورت شرعی پاک چیز کو نجس کرنا ناجائز و گناہ کا کام ہے، لہذا اس عمل سے اجتناب کرتے ہوئے علاج کا جائز طریقہ اختیار کیاجائے۔
جانور ذبح کر کےاس کا بہنے والا خون جسم پر ملنا جاہلانہ فعل ہے، جیسا کہ ابوداؤد شریف کی حدیث پاک میں حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہکا بیان ہے:
’’کنا فی الجاھلیۃ إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاۃ ولطخ رأسہ بدمھا فلما جاء اللہ بالإسلام کنا نذبح شاۃ ونحلق رأسہ ونلطخہ بزعفران‘‘
ترجمہ: حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دور جاہلیت میں تھے کہ جب ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا، تو وہ بکری ذبح کرتا اور اس کے سر کو بکری کے خون سے لتھیڑ دیتا۔ پھر جب اسلام آیا تو ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے تھے اور بچے کا سر منڈواتے اسے زعفران سے لتھیڑتے۔(سنن ابوداؤد،کتاب العقیقہ، ج2، ص118، دار الفکر، بیروت)
علامہ شہاب الدین ابو العباس احمد بن حسين بن علی بن رسلان المقدسی الرملی الشافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث مبارک کی شرح میں لکھتے ہیں :
”وفيه دليل على كراهية لطخ رأس المولود بالدم، وبه قال الشافعی والزهری ومالك وأحمد وابن المنذر؛ لأن هذا تنجيس للولد فلا يجوز كما لا يجوز لطخه بغيره من النجاسات“
ترجمہ: اور اس حدیث میں اس بات پر دلیل موجود ہے کہ نوزائیدہ بچے کے سر کو خون سے لتھیڑنا، مکروہ ہے۔ اسی قول کو امام شافعی، امام زہری، امام مالک، امام احمداور ابنِ منذر رحم اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کیا ہے، کیونکہ یہ عمل بچے کو نجاست سے آلودہ کرنا ہے،اور جس طرح کسی دوسری نجاست سے اسے لتھیڑنا، جائز نہیں، اسی طرح خون سے لتھیڑنا بھی جائز نہیں۔(شرح سنن أبي داود لابن رسلان، ج12،ص284، دار الفلاح، مصر)
دم مسفوح یعنی بہتا خون نجس اورحرام قطعی ہے، جیساکہ اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے
﴿ قُل لاَّ أَجِدُ فِی مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلاَّ أَن یَکُونَ مَیْتَۃً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِیرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللّہِ بِہِ﴾
ترجمہ کنزالایمان: ’’تم فرماؤ میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام، مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے یا وہ بے حکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا۔)‘‘القرآن،پارہ 8، سورہ انعام، آیت145(
اس آیت کے تحت امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ ’’احکام القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’وقولہ تعالی ﴿أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾ یدل علی أن المحرم من الدم ما کان مسفوحا‘‘ ترجمہ: اللہ عزوجل کافرمان﴿ أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا ﴾
یہ اس بات پردلالت کرتاہے کہ بہتا ہوا خون حرام ہے۔(احکام القرآن، ج3، ص 33، مطبوعہ کراچی)
دم مسفوح کسے کہتے ہیں، اس بارے میں تفسیر درمنثور میں ہے:
’’عن ابن جریج فی قولہ﴿ أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾قال المسفوح الذییھراق‘‘
حضرت ابن جریج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس قول ﴿ أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾کے بارے میں مروی ہے کہ آپ نے ارشادفرمایا: ’’مسفوح سے مراد وہ خون ہے، جوبہتا ہو۔(تفسیر درمنثور،ج3،ص383،دارالفكر ،بيروت)
یونہی’’غنیۃ المستملی‘‘میں ہے:
’’الدم المسفوح ماسال منہ‘‘
یعنی؛ بہتے ہوئے خون کودم مسفوح کہتے ہیں۔ (غنیۃ المستملی،ص171،مطبوعہ کوئٹہ)
دم مسفوح ناپاک ہے، جیسا کہ فتاوی عالمگیر ی میں ہے:
’’وکذلک الخمر ،والدم المسفوح و لحم المیتۃ۔۔ نجس نجاسۃ غلیظۃ ھکذا فی فتاوی قاضیخان‘‘
ترجمہ: اور اسی طرح خمر(انگوری شراب)اور بہتا ہوا خون اور مردار کا گوشت نجاست غلیظہ ہے، اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے۔(فتاوی عالمگیری ،ج 1،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)
بہتا ہوا خون نجس ہے،جیسا کہ ’’البنایہ‘‘ میں ہے۔
”والدم السائل نجس مطلقا“
یعنی بہتا خون مطلقا ناپاک ہے۔(البنایہ شرح الھدایہ، ج1، ص 263، مطبوعہ بیروت)
حرام چیز کے ذریعے علاج کرنے سے حدیث مبارک میں منع کیا گیا ہے، جیسا کہ ’’السنن الکبریٰ للبیہقی‘‘ کی حدیث مبارک میں ہے:
’’عن أبی الدرداء قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ عزوجل انزل الداء والدواء وجعل لکل داء دواء فتداووا ولا تداووا بحرام‘‘
ترجمہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ عزوجل نے مرض اور دوا نازل فرمائی اور ہر مرض کے لیے دوا ہے، توعلاج کرو، لیکن حرام سے نہ کرو۔(السنن الکبریٰ للبیھقی، ج10، ص9 دار الكتب العلميہ، بيروت)
حرام چیز سے علاج کرنا، جائز نہیں ہے، جیسا کہ ’’البحرالرائق‘‘ میں ہے:
’’ولایخفی ان التداوی بالمحرم لایجوز فی ظاھر المذھب‘‘
ترجمہ: اور مخفی نہیں ہے کہ ظاہر مذہب میں حرام اشیاء کوبطور دوائی استعمال کرنا، جائز نہیں ۔ (البحرالرائق ،ج3،ص389 ،مطبوعہ کوئٹہ)
یونہی فتاوی عالمگیری میں ہے :
”ولا يجوز ان يداوي بالخمر جرحا“
یعنی شراب سے زخموں کا علاج کرنا، جائز نہیں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، ج5، ص355، مطبوعہ کوئٹہ)
حرام و ناپاک چیز سے خارجی علاج بھی جائز نہیں، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ”شراب سے خارجی علاج بھی ناجائز ہے، مثلاً: زخم میں شراب لگائی یا کسی جانور کو زخم ہے، اس پر شراب لگائی یا بچہ کے علا ج میں شراب کا استعمال، ان سب میں وہ گنہگار ہوگا جس نے اس کو استعمال کرایا۔“(بھار شریعت، ج3، حصہ16، ص 506، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
بہار شریعت میں مزید ایک دوسرے مقام پر ہے: ”حرام چیزوں کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا ناجائز ہے۔“ (بھار شریعت، ج3، حصہ 16، ص505، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بلاضرورت پاک چیز کو نجس کرنا ناجائزہے، جیسا کہ ’’حاشیہ طحطاوی علی المراقی‘‘ میں ہے۔
”وتنجيس الطاهر بغير ضرورة لا يجوز“
یعنی پاک اشیاء کو بلا ضرورت ناپاک کرنا، جائز نہیں ہے۔ (حاشیہ طحطاوی علی المراقی، ص47، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”جسم و لباس بلاضرورت شرعیہ ناپاک کرنا اور یہ حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، ج4، ص 585، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب :مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Fsd-9369
تاریخ اجراء:21 ذوالحجۃ الحرام 1446ھ/18جون 2025ء