
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
عبد المبین نام رکھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
"عبد المبین" نام رکھنا جائز ہےکہ اس کا معنی بنے گا "نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا غلام" او رعبد کی نسبت بندوں کی طرف کرنے کا ثبوت قرآن پاک میں موجودہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
(وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْ)
ترجمہ کنز الایمان: اور نکاح کردو اپنوں میں اُن کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا۔ (سورۃ النور، پ 18، آیت 32)
فقہ حنفی کی مشہور کتاب درِ مختارکے مصنف کے استاذ صاحب کانام عبد النبی تھا، جس کاذکر در مختار کے مقدمے میں موجود ہے، چنانچہ وہ خودفرماتے ہیں:
"فإني أرويه عن شيخنا الشيخ عبد النبي الخليلي" (الدر المختار، صفحہ 7، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ہاں! بعض متاخرین علمانے ایسے نام رکھنے کی ممانعت و کراہت بیان فرمائی ہے، جن میں لفظ عبد کی نسبت اللہ تعالی کےعلاوہ کسی اور کی طرف ہو،جبکہ بطور لقب و وصف، لفظ عبد کی اضافت اللہ تعالی کے علاوہ کی طرف کرنے میں کسی قسم کا حرج نہیں۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے عبد المصطفیٰ، عبد النبی وغیرہ نام رکھنے کے متعلق سوال ہوا تو جواباً ارشاد فرمایا: "فقیر کے اس بارے میں تین رسالے ہیں جو میرے مجموعہ فتاوی میں ہیں۔ ایک دربارہ غلام مصطفی، اور اس کا جواز دلائل سے ثابت کیا ہے۔ دوسرا دربارہ عبد المصطفی، اور اس میں تحقیق یہ ہے کہ توصیفاًبلا شبہ جائز اور اجلہ صحابہ سے ثابت، کراہت کہ بعض متاَخرین نے لکھی،جانب تسمیہ راجع ہے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 669، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے" عبد المصطفیٰ، عبد النبی، عبد الرسول نام رکھنا جائز ہے کہ اس نسبت کی شرافت مقصود ہے اور عبودیت کے حقیقی معنی یہاں مقصود نہیں ہیں۔ رہی عبد کی اضافت غیر اللہ کی طرف یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔" (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 604، مکتبۃا لمدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3982
تاریخ اجراء: 06 محرم الحرام 1447ھ / 02 جولائی 2025ء