
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا مسجد کے صحن پر چھت ڈال کر مدرسہ بنا سکتے ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مسجد کا صحن مسجد ہی کا حصہ ہوتا ہے اور جو جگہ مسجد ہوچکی، وہ زمین سےآسمان تک مسجد ہے، اور اب اس جگہ پر یا اس کی چھت پر مدرسہ نہیں بنایا جاسکتا کہ یہ وقف میں تبدیلی ہے جوکہ جائز نہیں۔ در مختار میں ہے
(و) كره تحريما (الوطء فوقه، و البول و التغوط) لانہ مسجد الی عنان السماء
ترجمہ: مسجد کی چھت پر جماع کرنا، پیشاب اور پاخانہ کرنا مکروہ ہے اس لیے کہ وہ آسمان دنیا تک مسجد ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 1، صفحہ 656، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
درِ مختار میں ہے
لو بنى فوقه بيتا للامام لا يضر لانه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع و لو قال عنيت ذلك لم يصدق. تاترخانية۔ فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه و لو على جدار المسجد
ترجمہ: اگر مسجد کے اوپر امام کے لیے گھر بنایا تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ مصالح مسجد میں سے ہے، بہرحال اگر مسجدیت مکمل ہونے کے بعد تعمیر کا ارادہ کیا تو اسے منع کیا جائے گا اگرچہ وہ کہے کہ میری پہلے سے اس کی نیت تھی، اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، اسی طرح تاترخانیہ میں ہے۔ پس جب واقف کے بارے میں یہ حکم ہے توغیر واقف کو کیسے اجازت ہو گی؟ پس اس کو گرانا واجب ہو گا اگرچہ وہ مسجد کی دیوار پر ہو۔ (الدر المختار، صفحہ 371، مطبوعہ دار الکتب العلیہ، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے ”صحنِ مسجد جزوِ مسجد ہے کما نص علیہ فی الحلیۃ(جیسا کہ حلیہ میں اس پر تصریح ہے۔) اُس میں نماز مسجد ہی میں نماز ہے۔۔۔صحن کسی حکم میں مسجد سے جدا نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 73، مطبوعه رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاویٰ رضویہ میں ہے "ایک وقف جس غرض کے لئے وقف کیا گیا اسی پر رکھا جائے اس میں تو تغیر نہ ہو مگر ہیئت بدل دی جائے مثلاً دکان کو رباط کردیں یا رباط کو دکان، یہ حرام ہے۔ عالمگیری میں ہے:
لا یجوز تغییر الوقف عن ہیئتہ
(وقف جائداد کی ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا)۔ نہ کہ سرے سے سے موقوف علیہ بدل دیا جائے، متعلق مسجد کو مدرسہ میں شامل کر لیا جائے یہ حرام ہے اور سخت حرام ہے۔" (فتاویٰ رضویہ، جلد 16، صفحہ 231 - 232، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
"وقف کے شرعی مسائل" نامی کتاب میں ہے ”جس نے مسجد کے لیے زمین وقف کی، اگر اس نے زمین کو مسجد کر دینے سے پہلے اوپر مدرسہ بنادیا، تو جائز ہے، یونہی اوپر مسجد کردینے سے پہلے نیچے مدرسہ بنادیا، تو جائز ہے، لیکن اگر اوپر یا نیچے پہلے مسجد بنادی اور بعد میں مدرسہ کی نیت کی، تو جائز نہیں۔“ (وقف کے شرعی مسائل، صفحہ 176، مطبوعہ مکتبہ اہلسنت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3983
تاریخ اجراء: 07 محرم الحرام 1447ھ / 03 جولائی 2025ء