
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں اعوان ٹاؤن لاہور میں ایک سوسائٹی نے اپنا نجی بیت المال قائم کیا ہے جس میں زکوۃ و صدقات نافلہ، قربانی کی کھالوں کی رقوم مستحق افراد کے لیے اکٹھا کر کے سارا سال تقسیم کی جاتی ہیں۔ بیت المال اعوان ٹاؤن سوسائٹی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ ان دنوں سوسائٹی قبرستان کے لیے جگہ خریدنے کے پروگرام بنارہی ہے جس کے لیے ممبران سوسائٹی سے رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے یہی مطالبہ انتظامیہ نے بیت المال کمیٹی سے بھی کیا ہے۔ آپ سےگزارش ہے کہ شریعت کی روشنی میں ہمیں اس معاملہ میں جواب عنایت فرمائیں کہ بیت المال کی وہ رقم جوزکوۃ و صدقات نافلہ اور قربانی کی کھالوں کی قیمت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے آیا ہم اس رقم کو قبرستان کےلیےجگہ خریدنے میں استعمال کرسکتے ہیں؟
سائل: ذو الفقار علی (لاہور)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
زکوۃ کی رقم قبرستان کی خریداری میں استعمال نہیں کرسکتے، اسی طرح نفلی صدقات اور قربانی کی کھالوں کی وہ رقم جومستحقین تک پہنچانے کے لیے اکٹھی کی گئی ہے قبرستان کی خریداری میں استعمال نہیں کرسکتے۔ ہاں جب زکوۃ کی رقم فقیر شرعی کو دے کر اسے مالک بنادیا اوروہ عاقل و بالغ ہے تو وہ اپنی مرضی سے قبرستان کی خریداری میں صرف کرسکتا ہے۔ اسی طرح نفلی صدقات اور قربانی کی کھالوں کی رقم جو ابھی تک مستحقین تک پہنچائی نہیں گئی وہ ابھی دینے والوں کی ملک پر باقی ہے اگر دینے والے اس رقم کو قبرستان کی خریداری میں صرف کرنے کی اجازت دے دیں توان کی اجازت سے اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: Lar-6103
تاریخ اجراء: 18 محرم الحرام 1438ھ / 20 اکتوبر 2016ء