دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی دو کنال زمین مسلمانوں کے قبرستان کے لیے وقف کی، بعدِ وقف کچھ مسلمان میتوں کو وہاں دفن بھی کیا گیا۔کچھ عرصے بعد اس شخص کا ارادہ بنا کہ وہ اس وقف شدہ جگہ کے ایک طرف سے کچھ مرلے جہاں کوئی قبر نہیں ہے، واپس اپنے پاس رکھ لے اور اس کے متبادل اپنی دوسری زمین سے اتنی جگہ قبرستان کے لیے وقف کردے۔ وقف کرتے وقت اس نے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی تھی کہ بعد میں اس وقف شدہ جگہ میں سے کچھ خالی جگہ کو دوسری جگہ سے تبدیل کرسکتا ہے۔ اب پوچھنا یہ تھا کہ کیا وہ اس طرح وقف شدہ جگہ میں سے کچھ خالی جگہ کو دوسری اتنی جگہ کے بدلے واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں شخصِ مذکور کا وقف شدہ جگہ میں سے کچھ جگہ واپس لینا اور اس کے بدلے دوسری جگہ دینا، مفتی بہ قول کے مطابق جائز نہیں ہے۔
تفصیل یہ ہے: امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق جب کسی جگہ کو قبرستان کے لیے وقف کردیا جائے توواقف کے کہنے سے ہی وہ تمام جگہ وقف ہوجاتی ہے اور وہ جگہ واقف کی ملک سے نکل کر خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اس کے بعد واقف اس میں سے نہ تو کچھ جگہ واپس لے سکتا ہے(خواہ وہ خالی جگہ ہی ہو) نہ اسے بیچ سکتا ہے، فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی قول مفتی بہ ہے۔ نیز وقف کے بعد موقوفہ جگہ میں تبدیلی تب ہوسکتی ہے، جب واقف نے وقف کرتے ہوئے اس کی شرط لگائی ہو، یا پھر شرط تو نہ لگائی ہو لیکن وہ جگہ اپنے مصرف میں بالکل نفع مند نہ رہے، تو اس صورت میں چند شرائط کے ساتھ استبدال (وقف شدہ جگہ کو تبدیل)کرسکتے ہیں، لیکن اگر وہ جگہ اپنے مصرف میں کار آمد ہو، تو بھلے دوسری جگہ میں وقف کا زیادہ فائدہ ہو، اسے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں واقف کے وقف کرتے ہی وقف تام ہو گیا اور وہ جگہ اس کی ملکیت سے نکل گئی، نیز اس نے جگہ کو وقف کرتے ہوئے تبدیلی کی شرط بھی نہیں لگائی تھی اور وہ جگہ اپنے مصرف میں کارآمد بھی ہے، لہذا اب اس کا اس میں سے کچھ جگہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:
”(قوله ومن بنى سقاية أو خانا أو رباطا أو مقبرةلم يزل ملكه عنه حتى يحكم به حاكم) يعني عند أبي حنيفة۔۔۔ وعند أبي يوسف يزول ملكه بالقول كما هو أصله إذ التسليم عنده ليس بشرط والوقف لازم.وفي فتاوى قاضي خان ونأخذ في ذلك بقول أبي يوسف“
ترجمہ: مصنف کا قول: اور جس نے سقایہ(سبیل)، مسافر خانہ، مجاہدین کے گھوڑے باندھنے کی جگہ یا قبرستان بنایا (ان مصارف میں سے کسی مصرف کے لیے جگہ وقف کی)، تو جب تک حاکم اس کا فیصلہ نہ کردے، تو امام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک وہ جگہ واقف کی ملکیت سے نہیں نکلتی۔ (جبکہ) امام ابو یوسف کے نزدیک صرف کہنے سے ہی وہ جگہ واقف کی ملکیت سے نکل جائے گی، کیونکہ امام ابو یوسف کے نزدیک تسلیم شرط نہیں ہے، وقف لازم ہوجاتا ہے، فتاوی قاضی خان میں ہے کہ ہم امام ابو یوسف کے قول کو ہی لیتے ہیں(یعنی اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں)۔ (البحر الرائق، جلد05، صفحہ 274، دار الكتاب الإسلامي)
وقف ہوجانے کے بعد واقف اس چیز کا مالک نہیں رہتا، چنانچہ ردالمحتار علی درمختار میں ہے:
”(فإذا تم ولزم لایملک) أی: لایکون مملوکاً لصاحبہ (ولایملک) أی: لایقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ“
ترجمہ: جب وقف مکمل اور لازم ہوجائے، تونہ وقف کرنے والا اس کا مالک ہوتا ہے اور نہ اس وقف کا کسی کو مالک بنایا جاسکتا ہے، یعنی وقف، بیع یا اس کی مثل کسی ذریعے سے دوسرے کو مالک بنانے کو قبول نہیں کرتا۔ (ردالمحتار علی درمختار، جلد06، صفحہ 540، مطبوعہ کوئٹہ)
بعدِ وقف موقوفہ جگہ میں تغییر جائز نہیں ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے: ”لا یجو زتغییر الوقف عن ھیئتہ “ترجمہ: وقف کو جس چیز کے لیے وقف کیا گیا ہے، اس سے بدلنا جائز نہیں ہے۔ (الفتاوٰى الھندیۃ، جلد02، صفحہ490، مطبوعہ کوئٹہ)
جب وقف کرتے ہوئے استبدال کی شرط نہ لگائی ہو تو اس کے متعلق امام کمال الدین ابنِ ھُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 861 ھ/ 1456ء) لکھتے ہیں:
”والحاصل أن الاستبدال إما عن شرطه الاستبدال ۔۔۔ أو لا عن شرط، فإن كان لخروج الوقف عن انتفاع الموقوف عليهم به فينبغي أن لا يختلف فيه۔۔۔وإن كان لا لذلك بل اتفق أنه أمكن أن يؤخذ بثمن الوقف ما هو خير منه مع كونه منتفعا به فينبغي أن لا يجوز؛ لأن الواجب إبقاء الوقف على ما كان عليه۔۔۔ولأنه لا موجب لتجويزه لأن الموجب في الأول الشرط وفي الثاني الضرورة، ولا ضرورة في هذا إذ لا تجب الزيادة فيه بل تبقيته كما كان“
ترجمہ: حاصل کلام یہ کہ استبدال (وقف کو تبدیل کرنا) یا تو واقف کی شرطِ استبدال کے ساتھ ہوتا ہے یا پھر بغیر شرط کے، پس اگر استبدال اس وجہ سے ہو کہ وقف، موقوف علیہم (جن پر وقف کیا گیا ان) کے لیے قابل انتفاع نہ رہے، تو اس میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے (یعنی یہ صورت جائز ہے)۔ اور اگر یہ وجہ نہ ہو، بلکہ محض ایسا اتفاق ہو کہ اس وقف کے بدلے وہ چیز حاصل کی جا سکتی ہے جو اس سے بہتر آمدنی یا فائدہ رکھتی ہو، حالانکہ موجودہ وقف میں بھی نفع حاصل ہو رہا ہے، تو ایسی صورت میں استبدال جائز نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ لازم یہ ہے کہ وقف کو اسی طرح باقی رکھا جائے جس طرح اصل میں تھا۔ اور اس لیے بھی کہ اس صورت میں استبدال کے جواز کا کوئی موجب نہیں ہے؛ کیونکہ پہلی صورت میں موجب واقف کی شرط ہے، دوسری صورت میں ضرورت ہے، جب کہ یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وقف میں اضافہ کرنا لازم نہیں، بلکہ اسے اسی طرح باقی رکھنا ضروری ہے جیسا کہ وہ تھا۔ (فتح القدیر، جلد06، صفحہ228، دار الفکر، لبنان)
صاحبِ فتح القدیر کی مذکورہ عبارت ذکر کرنے کے بعد علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”أقول: ما قاله هذا المحقق هو الحق الصواب“ ترجمہ: میں کہتا ہوں: جو محقق (ابن الھمام )رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا وہی حق اور درست ہے۔(رد المحتار علی در مختار، جلد04، صفحہ 388، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : OKR-0152
تاریخ اجراء : 28 جمادی الاولی 1447 ھ/20نومبر 2520 ء