مسجد کے چندے سے مسجد کمیٹی کیلئے ایصالِ ثواب کرنا

مسجد کی انتظامیہ کے ایصالِ ثواب کے لئے مسجد کے چندے سے محفل کرنا

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

مسجد یا مدرسے کے کسی ممبر یا کمیٹی کے فرد کا انتقال ہو جائے تو کیا مسجد یا مدرسے کے چندے سے میلاد شریف کر سکتے ہیں؟ ان کے ایصال ثواب کے لئے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسجد یا مدرسے کا جو عمومی چندہ جمع ہوتا ہے، وہ مسجد کے مصالح (جیسے تعمیرات، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی، امام و مؤذن، خادمین کے وظائف اور صفائی ستھرائی میں ہونے والے اخراجات وغیرہ)، یونہی مدرسہ کے مصالح (جیسے مدرسین و خادمین کے وظائف، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی) کے لیے دیا جاتا ہے، اسے دینے والوں کی غرض کے خلاف کسی اور مصرف میں استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں، اور ایصال ثواب کے لئے محفل کرنا اور مسجد کے چندے کو ایصال ثواب کی محفل یعنی نیاز وغیرہ میں استعمال کرنا، خلاف مصرف استعمال کرنا ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں۔

مسجد کا چندہ مسجد کے عمومی اخراجات میں استعمال کرنا ضروری ہے، اس کے متعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”جب عطیہ و چندہ پر آمدنی کا دار ومدار ہے، تو دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں یا کوئی اہلِ خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائیداد وقف کرے، اُسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صَرف کی جاسکتی ہے، دوسرے میں صرف کرنا جائز نہیں، مثلاً اگر مدرسہ کے لیے ہو، تو مدرسہ پر صَرف کی جائے اور مسجد کے لیے ہو، تو مسجد پر (خرچ کرنا ضروری ہے)۔ (فتاوی امجدیہ، جلد3، صفحہ 42، مکتبہ رضویہ، کراچی)

مدرسے کے عمومی چندے کو مدرسے کی مصلحت پرخرچ کیا جائے گا اور عمارت کے بعد مدرس مدرسے کے مصالح میں سب سے مقدم ہے۔ جیساکہ رد المحتار میں ہے

”قال فی الحاوی القدسی: والذی یبدأ بہ من ارتفاع الوقف: ای من غلتہ عمارتہ شرط الواقف اولا، ثم ما ھواقرب الی العمارۃ و اعم للمصلحۃ کالامام للمسجد و المدرس للمدرسۃ یصرف الیھم الی قدر کفایتھم، ثم السراج و البساط کذالک الی آخر المصالح

ترجمہ: حاوی قدسی میں فرمایا: وقف کی آمدن میں سے جس پر خرچ کی ابتدا کی جائے گی، وہ اس کی عمارت ہے، واقف نے شرط رکھی ہو یا نہ رکھی ہو۔ پھر جو عمارت سے زیادہ قریب اور مصلحت کے لیے زیادہ عام ہو، جیساکہ مسجد کے لیے امام اور مدرسہ کے لیے مدرس پر اس کی کفایت کی قدر خرچ کیا جائے گا۔ پھر چراغ اور چٹائی اور اس طرح کے دیگر مصالح پر خرچ کیا جائے گا۔ (رد المحتار، جلد6، صفحہ563، مطبوعہ: کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر : WAT-4472

تاریخ اجراء : 02جمادی الثانی1447 ھ/24نومبر2025 ء