
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
میلاد شریف کے لنگر کے لیے رقم جمع کی اور لنگر بنانے کے بعد کچھ رقم بچ گئی ، تو کیا وہ رقم میلاد کے دوسرے امور جیسے جلوس ، لائٹنگ وغیرہ کے اخراجات پہ لگا سکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
چندہ جس غرض کے لیے جمع کیا جائے، اسی میں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے، اسے کسی دوسری غرض میں خرچ نہیں کر سکتے، لہٰذا اگر میلاد شریف کے لنگر کے لیے جمع کیا جانے والا چندہ بچ جائے، تو اسے لائٹنگ وغیرہ کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کر سکتے، بلکہ اگر دینے والے یا ان کے انتقال کر جانے کی صورت میں ان کے ورثا معلوم ہوں، تو بحصۂ رسد ان کو دے دیں یا جس کام میں خرچ کرنے کی وہ اجازت دیں، اسی میں خرچ کریں (جبکہ ان میں کوئی بچہ یامجنون نہ ہو،اگرکوئی بچہ یامجنون ہوتواس کی رقم اس کودینالازم ہے ،اس کی اجازت کافی نہیں) اوراگرمالک کابھی معلوم نہیں اورنہ اس کے ورثاکایانہ مالک رہے اورنہ اس کے ورثاتو جس کام کے لئے چندہ لیا تھا ،اسی طرح کے دوسرے کام میں اِستعمال کریں، جیسے میلاد شریف کے لنگر کے لیے چندہ کیا ، توکسی اور موقع پر میلاد شریف کے لنگر پہ ہی لگا دیا جائے اور اگر اس طرح کا دوسرا کام بھی نہ ملے، تو بچ جانے والا وہ چندہ مثلِ مالِ لقطہ ہے اور کسی بھی نیک و جائز کام مثلاً کسی محفل یا مسجد و مدرسہ میں بھی خرچ کر سکتے ہیں اور کسی فقیر پر بھی صدقہ کر سکتے ہیں۔
حصۂ رسد سے مراد یہ ہے کہ مثلاً 8 افراد نے 100، 100 روپے اور 4 افراد نے50 ، 50 روپے چندہ دیا، اب اس 1000 روپے میں سے 600 روپے استعمال ہوگئے اور 400 بچ گئے، تو 100 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 40 روپے اور 50 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 20 روپے واپس کرنے ہوں گے۔
اس صورت حال سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ لنگر وغیرہ کسی خاص مد کے لیے چندہ کرتے ہوئے لوگوں سے اس طرح اجازت لے لی جائے کہ اس سے جو پیسے باقی بچ جائیں گے ، وہ ہم کسی اور نیک و جائزکام میں استعمال کر لیں گے۔ اگر چندہ دینے والے اس کی اجازت دے دیتے ہیں ، تو پھر باقی رہ جانے والی رقم کو آپ ان سے لی ہوئی اجازت کے مطابق صرف کرسکیں گے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
ان عرف صاحب الفضل ردہ علیہ وان لم یعرف کفن بہ محتاجا اٰخر و ان لم یقدر علٰی صرفہ الی الکفن یتصدق بہ علی الفقراء
ترجمہ: اگر زائد چندے والا معلوم ہوتو اسے واپس کیا جائے اور اگر معلوم نہ ہوتو پھر کسی اور محتاج کو کفن دیا جائے، اور اگر کسی کفن میں صرف کرنا مقدور نہ ہوتو پھر فقراء پر صدقہ کیا جائے۔ (فتاوی ہندیہ، ج 1، ص 161،دار الفکر، بیروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ چندہ کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں: ”دینے والے جس مقصد کے لئے چندہ دیں یا کوئی اہلِ خیر جس مقصد کے لئے اپنی جائداد وقف کرے، اوسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صرف کی جا سکتی ہے۔ دوسرے میں صرف کرنا، جائز نہیں مثلاً اگر مدرسہ کے لئے ہو، تو مدرسہ پر صرف کی جائے اور مسجد کے لئے ہو تو مسجد پر۔“(فتاوی امجدیہ، ج 3، ص 42، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے " ایسے چندوں سے جو روپیہ فاضل بچے وہ چندہ دہندگان کا ہے انہیں کی طرف رجوع لازم ہے وہ دیگ وغیرہ جس امر کی اجازت دیں وہی کیا جائے، ان میں جو نہ رہے اس کے عاقل بالغ وارثوں کی طرف رجوع کی جائے اگر ان میں کوئی مجنون یا نابالغ ہے تو باقیوں کی اجازت صرف اپنے حصص کے قدر میں معتبر ہوگی صبی ومجنون کا حصہ خواہی نخواہی واپس دینا ہوگا، او راگر وارث بھی نہ معلوم ہوں تو جس کام کے لئے چندہ دہندوں نے دیا تھا اسی میں صرف کریں، وہ بھی نہ بن پڑے تو فقراء پر تصدق کردیں، غرض بے اجازت مالکان دیگ لینے کی اجازت نہیں۔" (فتاوی رضویہ، ج 16، ص 134، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4163
تاریخ اجراء: 27صفرالمظفر1447ھ/22اگست2025ء