
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں کچھ تعمیراتی کام جاری ہیں، جن کے لیے ایک شخص نےپچاس ہزار روپے مسجد کے متولی کو چندہ دیے، متولی نے وہ پیسے بعد قبضہ مسجد کے دیگر چندے میں شامل کرلیے۔ اب دو دن بعد وہ شخص آکر یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، تو جو پیسے میں نے مسجد کے لیے دیے تھے، مجھے واپس کردیجیے۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا اب اس شخص کو چندہ واپس لینے کا حق ہے، جبکہ ابھی مسجد کی تعمیرات جاری ہیں اور پیسوں کی حاجت بھی ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جب اس شخص نے پچاس ہزار روپے مسجد کےتعمیر اتی کاموں کے لئے متولی مسجد کے سپرد کر دئیے اور متولی نے ان پر قبضہ کر لیا، تو اب شخصِ مذکور کو چندے کی رقم واپس لینے کا شرعاً کوئی حق نہیں،کیونکہ مسجد موجود ہو اور اس کاکوئی متولی بھی مقررہوتواس کی مزیدتعمیریامصارف ومصالح کے لیے جوچندہ متولی کو دیدیا جائے، شرعاً وہ مسجدکےلیے ہبہ قرار پاتا ہے اورمتولی، مسجدکی طرف سے قبضے کا وکیل ہوتاہے، لہذاچندہ متولی کے قبضے میں آتے ہی ہبہ مکمل ہوگیا اور چندہ دینےوالے کی ملک سے نکل کر مسجد کی ملک میں آ گیا، اور چندہ دینے والےکو واپسی کا اختیار باقی نہ رہا۔
مسجد کے لیے دی ہوئی رقم پر قبضہ کر نے سے مسجد کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے، جیساکہ محیطِ برہانی اور فتاوی ہندیہ میں ہے:
و اللفظ للھندیہ: رجل أعطى درهما في عمارة المسجد أو نفقة المسجد أو مصالح المسجد صح ، لأنه و إن كان لا يمكن تصحيحه وقفاً یمکن تصحیحہ تمليكا بالهبة للمسجد، فإثبات الملك للمسجد على هذا الوجه صحيح، فيتم بالقبض
ترجمہ: کسی شخص نے مسجد کی تعمیر یا اس کے اخراجات یا مصالح کے لئے ایک درہم دیا تو جائز ہے، کیونکہ اگر وقف کے طور پر اسے درست قرار دینا ممکن نہ ہوتو اس طور پر اسے درست قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ بطور ہبہ مسجد کے لئے تملیک ہے۔ تو اس طرح مسجد کی ملکیت ثابت کرنا درست ہے اوروہ ملکیت قبضہ کرنے سے مکمل ہوجائے گی۔ (الفتاوٰی الھندیہ، ج 2، ص 460،دار الفکر، بیروت)
اسی طرح فتاوی رضویہ میں ہے: ”عمرو نے جو وہ روپیہ تعمیر مسجد کو دیا، اگرمسجد موجود تھی اور اس کی تعمیر کو دیا، تو یہ مسجد کے لئے ہبہ ہوا۔۔۔ متولیان مسجد، موہوب لہ(مسجد) کے نائب(ہیں)۔“ (فتاوی رضویہ، ج 16، ص 244- 245، رضا فاونڈیشن، لاہور)
متولی کے قبضہ کر نے کے بعد چندہ واپس نہیں لیا جاسکتا، چنانچہ اعلیٰ حضرت، امام اہل سنت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ ”ایک شخص نے مسجد کے خرچ کےلئے لکڑی اینٹ وغیرہ دی ہےتو کیا اب اسے واپس لے سکتا ہے؟“ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشادفرمایا: ” وہ شخص واپس نہیں لے سکتا، جبکہ مسجد کے لئے مہتممان مسجد کو سپرد کرچکا ہو، بلکہ وہ اشیاء حاجت مسجد کےلئے محفوظ رکھی جائیں اور اس میں دقت ہوتو بیچ کر قیمت خاص تعمیر ومرمت مسجد کے لئے محفوظ رکھیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 488، رضافاونڈیشن، لاہور)
مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ”ایک عورت نے مسجد کے لیے اپنے کچھ زیورات دئیے۔پھر کچھ عرصہ بعد اس عورت نے زیورات کی واپسی کا مطالبہ کردیا، تو منتظمان مسجد نے وہ زیور واپس نہ کیے، تو کیا وہ واپس نہ دے کر گنہگار ہوئے؟“(ملخصاً)
تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا ”اگر کوئی جائداد منقولہ مسجد کو دی جائے تو شرعاً اسے مسجد کے لیے ہبہ کہیں گے اور مسجد کے متولی ومنتظم کا اس پر قبضہ ہوجانے کے بعد واہب وہ چیز واپس نہیں لے سکتا، بشرطیکہ مسجد کو اس کی ضرورت ہو۔ ۔۔ اور ہبہ جب بنیت ثواب ہے تو لوٹایا نہیں جاسکتا۔۔۔ پس صورت مسئولہ میں زیور کی واپسی کا مطالبہ چونکہ غلط تھا، اس لیے ناجائز تھا، اور منتظمانِ مسجد نے واپس نہ دے کر کوئی قصور نہیں کیا، نہ اس پر کوئی مؤاخذہ آخرت ہے۔“ (فتاوی بحر العلوم، ج 5، ص 131، شبیر برادرز، لاہور)
”چندے کے بارے سوال وجواب“ کتاب میں ہے: ”اگرمسجدیامدرسہ موجودہیں اوران کاکوئی متولی بھی ہےتوان کی مزیدتعمیرکے لئےیاان کے مصارف (اخراجات) کے لئے جوچندہ متولی کے پاس جمع ہوتاہے، یہ مسجدیامدرسے کے لئے ہبہ ہوتا ہے اورمتولی مسجدیامدرسہ کی طرف سے وکیل بالقبض ہوتاہے، لہذاچندے کے متولی کے قبضے میں آتے ہی ہبہ تام (یعنی ہبہ مکمل) ہوجاتا ہے، اور چندہ مسجدیامدرسے کی ملک میں آجاتاہے اورمالک کی ملک سے نکل جاتا ہے۔“ (چندے کے بارے سوال وجواب، صفحہ 28- 29، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: PIN-7616
تاریخ اجراء: 02صفر المظفر1446ھ/28جولائی2025ء