ایک مسجد کا منبر دوسری مسجد میں دینا کیسا؟

ایک مسجد کا منبر استعمال میں نہ ہو تو دوسری مسجد میں دے سکتے ہیں؟

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد کا ایک ہی لکڑی کا منبر ہے، پہلے استعمال ہوتا تھا، لیکن تین سال سے وہ منبر استعمال نہیں ہوا، خطیب صاحب کرسی استعمال کرتے ہیں، اس کو ویسے ہی اسٹور روم میں رکھا ہوا ہے۔ اب کیا اس کو دوسری مسجد میں دے سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس منبر کو دوسری مسجد میں دینا شرعاً جائز نہیں ہے، اس لیے کہ خطیب صاحب کا اسے استعمال نہ کرنا کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ جس کی بناء پر اسے دوسری مسجد میں دے دیا جائے، نیز جو چیز جس جگہ کے لیے وقف ہو اسے اسی جگہ میں استعمال کرنا ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ اس کا استعمال جائز نہیں۔ ہاں اگر مسجد کومنبر کی بالکل حاجت نہیں اور نہ ہی اسے استعمال کرنے کی کوئی امیدہویا آئندہ استعمال میں تو آسکے، لیکن وقتِ ضرورت تک پڑے رہنے سے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس منبر کو مسجد کی انتظامیہ فروخت کر کے اس کی قیمت کو مسجد کی ضروریات میں صرف کر سکتی ہے اوردوسری مسجد کی انتظامیہ کو اگر اس کی حاجت ہو، تو وہ اس مسجد کو اس کی قیمت ادا کر کے اپنی مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں، بغیر قیمت کے دوسری مسجد میں نہیں دے سکتے۔

ایک مسجد کی چیز دوسری مسجد میں دینا جائز نہیں، چنانچہ درر الحکام شرح غرر الاحکام، مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر اور تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

و النظم للآخر: (و إن اختلف أحدهما بأن بنى رجلان مسجدين) أو رجل مسجدا و مدرسة و وقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك

یعنی اگر واقف الگ الگ ہوں یا واقف ایک ہو لیکن جہتِ وقف (مصرف) مختلف ہو جیسے دو شخصوں نے دو مسجدیں بنائیں یا ایک شخص نے ایک مسجد اور ایک مدرسہ بنایا اور ان پر جائداد یں وقف کیں تو اب حاکم کو بھی جائز نہیں کہ ایک کا مال دوسرے میں صرف کرے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، کتاب الوقف، صفحہ 371، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سے اسی طرح کا سوال ہوا کہ کیا ایک مسجد کی ملکیت دیگر مسجد میں خرچ کرنا درست ہے یانہیں؟ کیا مسجد کا پیسہ مدرسہ میں خرچ کرے تو درست ہوگا یانہیں؟ فرمایا: ”دو نوں صورتیں حرام ہیں مسجد جب تک آباد ہے اس کا مال نہ کسی مدرسے میں صرف ہوسکتا ہے نہ دوسری مسجد میں، یہاں تک کہ اگر ایک مسجد میں سو چٹائیاں یا لوٹے حاجت سے زیادہ ہوں اوردوسری مسجد میں ایک بھی نہ ہو تو جائز نہیں کہ یہاں کی ایک چٹائی یالوٹا دوسری مسجد میں دے دیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 280، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ایک اور جگہ پر امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ایک سوال ہوا کہ اول مسجد کی جائدادِ وقف کی آمدنی کسی دوسری مسجدکے مصارف میں خرچ ہوسکتی ہے یانہ؟ اس کے جواب میں لکھتے ہیں: ”ہرگز جائز نہیں یہاں تک کہ اگر ایک مسجد میں لوٹے حاجت سے زائد ہوں اور دوسری میں نہیں، تو اس کے لوٹے اس میں بھیجنے کی اجازت نہیں۔(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 241، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اگرمسجد کو منبر کی بالکل حاجت نہ ہو اور آئندہ رکھنے میں اس کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہو، تو اسے بیچ کر دوسری مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ مسجد کی کوئی چیز مسجد کے کام سے فاضل ہو اور وہ چیز اس مسجد کے کام میں آنے کی نہیں ہے اور وہ چیز ایسی ہے کہ کثر مدت تک بے کار رہنے سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں وہ چیز بیع کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس پر آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”جب وہ چیز بے کار ہے اور اندیشہ نقصان ہے تو فروخت کر کے قیمت مسجد میں صرف کریں۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 3، صفحہ 110، مکتبہ رضویہ، کراچی)

مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1403ھ / 1982ء) ایک سوال (مسجدکاوہ سامان جو کسی طرح بھی استعمال کے لائق نہیں، اس کو فروخت کرسکتے ہیں اور اس کی قیمت مسجد میں صرف کرسکتے ہیں یا کہ یونہی ضائع ہونے دیں؟) کے جواب میں لکھتے ہیں: ”وہ سامان فروخت کر کے قیمت مسجد پر صرف (خرچ)کرنا، جائز ہے، کیونکہ فروخت نہ کرنے کی صورت میں وہ سارا مال ضائع ہو جائے گا۔ (فتاویٰ نوریہ، جلد 1، صفحہ 149، مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0107

تاریخ اجراء: 10ربیع الثانی 1447ھ/04 اکتوبر 2025 ء