
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ہمارے گاؤں کی مسجد سیلاب آنے کے سبب گرگئی ،اس کا کافی سارا سامان تو ہم نے پہلے ہی محفوظ کر لیا تھا، مگر سیلاب کے پانی اور مسجدگرنے کے سبب اس کے دروازے، کھڑکیاں، چھت والےپنکھےاور نمازیوں کےلئے رکھی ہوئیں لکڑی کی کرسیاں ٹوٹ چکی ہیں اور بالکل خراب ہوچکی ہیں، یہ اشیاءآئندہ بھی مسجد کے کسی کام میں استعمال نہیں ہوسکتیں، بلکہ مزید رکھنے سے بالکل ضائع ہو جائیں گی، اب پوچھنا یہ تھا کہ مسجد کی تعمیرات کے دوران پیسوں کی اشد ضرورت ہے، کیا مسجد کا متولی اس بیکار سامان کو بیچ کر اس کی رقم مسجد کی تعمیر ات میں خرچ کرسکتاہے؟
نوٹ:سائل نے بیان کیا کہ مسجد کے پنکھےاورنمازیوں کے لئےکرسیاں کسی شخص نے لے کر دی تھیں، اس کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مسجد کے متولی کےلئےجائزہے کہ وہ مسجد کےبیکاراور ناقابلِ استعمال سامان کومناسب قیمت میں بیچ کرمسجد کی تعمیرات میں خرچ کردے۔
تفصیل یہ ہے کہ شریعت کی رو سےمسجد کی اشیاءتین طرح کی ہوتی ہیں: (1) اصلِ وقف یعنی مسجد کی زمین اور عمارت وغیرہ۔ (2) مسجد کے اجزاء جیسے مسجد کےدروازے اور کھڑکیاں وغیرہ۔ (3) مسجد کے آلات و اسباب جیسے چٹائیاں، چراغ، پنکھےوغیرہ۔
مسجد کے اجزاء (کھڑکیاں،دروازے وغیرہ) کےمتعلق حکمِ شرع یہ ہےکہ جب یہ بالکل بیکارہوجائیں، قابل استعمال نہ رہیں اورآئندہ بھی کسی طرح ان کواستعمال نہ کیا جاسکتا ہو تو اس صورت میں قاضی شرع نہ ہونے کی صورت میں مسجد کا متولی ان اشیاء كو مناسب قیمت میں بیچ کر مسجد کی تعمیر میں خرچ کردے۔ اور مسجدکےآلات و اسباب (پنکھے، کرسیاں، وغیرہ) جب بالکل بیکار ہوجائیں اور قابل استعمال نہ رہیں، تو اگر کسی شخص نے اپنے ذاتی مال سے دئیے تھے، تو اس کی ملکیت میں لوٹ جاتے ہیں، وہ جو چاہے کرے، اور اگر دینے والا معلوم نہ ہو تو اس مال کا حکم مالِ لقطہ کی طرح ہے کہ کسی شرعی فقیرکو دے دیاجائے، یا قاضی شرع کے نہ ہونے کی صورت میں مسجد کامتولی ان اشیاء كو بیچ کر مسجد کے مصالح پر خرچ کر دے۔
مسجد کے اجزاء بیکار ہوجائیں تو ان کے متعلق تنویر الابصار مع در مختار، فتاوٰی عالمگیری اور فتاوٰی قاضی خان میں ہے:
و النظم للاول: ( صرف) الحاكم او المتولي (نقضه) او ثمنه ان تعذر اعادة عينه (الى عمارته ان احتاج والا حفظه ليحتاج) الا اذا خاف ضياعه فيبيعه ويمسك ثمنه ليحتاج
ترجمہ: حاکم یا متولی وقف کے ملبہ یا اس کی قیمت کو(وقف کے مصالح پر ہی )خرچ کرے،اگر بعینہ ان چیزوں کا حاجت کے وقت عمارت پر لگانا متعذر ہو،ورنہ ان کو حاجت کے وقت کیلئے محفوظ رکھا جائے، مگر یہ کہ جب اس ملبہ کے ضائع ہونے کا خوف ہو تو اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت کو حاجت کے وقت کیلئے رکھ دیا جائے۔ (تنویر الابصار مع درِ مختار، صفحہ 373، مطبوعہ دار الكتب العلمية)
مسجد کےآلات و اسباب جب بالکل بیکاراور ناقابلِ استعمال ہوجائیں، تودینے والے کی مِلک کی طرف لوٹ جانے کے متعلق المبسوط لِلسَرخسی میں ہے:
و لو اشترى حصر المسجد، او حشيشا فوقع الاستغناء عنه كان له ان يصنع به ما شاء
ترجمہ: اگر کسی شخص نے مسجد کی چٹائی یا گھاس خریدی اور وہ مسجد کے کام کی نہ رہی،تو وہ مالک کیلئے ہوگی، (اس کیلئے جائز ہوگا کہ) جیسا چاہے اس کو عمل میں لائے۔(المبسوط للسرخسی، کتاب الوقف، جلد 12، صفحہ 42، مطبوعہ دار المعرفة، بيروت)
امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں: ”مسجد کی چیزیں اس کے اجزاء ہیں،یا آلات یا اوقاف یا زوائد، اجزاء۔۔۔۔ اگر معاذ اللہ! مسجد کی کچھ بنا منہدم ہوجانے(گرجانے) یا اس میں ضعف آجانے کےسبب خودمنہدم کرکےازسر نو تجدید عمارت کریں، اب جو اینٹوں، کڑیوں، تختوں کے ٹکڑے حاجت مسجدسےزائدبچیں کہ عمارت مسجدکےکام نہ آئیں اور دوسرے وقت حاجت عمارت کے لئے اٹھارکھنے میں ضائع ہونے کا خوف ہو، تو ان دو شرطوں سے ان کی بیع میں مضائقہ نہیں، مگر اذن قاضی درکار ہے اور اس کی قیمت جو کچھ ہو وہ محفوظ رکھی جائے کہ عمارت ہی کے کام آئے۔۔۔۔ آلات یعنی مسجد کا اسباب جیسے: بوریا، مصلیٰ، فرش، قندیل، وہ گھاس کہ گرمی کے لئے جاڑوں میں بچھائی جاتی ہے وغیر ذٰلک۔ اگر سالم وقابلِ انتفاع ہیں اورمسجدکوان کی طرف حاجت ہے،تو ان کے بیچنے کی اجازت نہیں اور اگر خراب وبیکار ہوگئی۔۔۔ اگر کسی شخص نے اپنے مال سے مسجد کو دئیے تھے، تو مذہب مفتیٰ بہ پر اس کی ملک کی طرف عود کرے گی، جو وہ چاہے کرے، وہ نہ رہا ہو اور اس کے وارث وہ بھی نہ رہے ہوں یا پتا نہ ہو تو ان کا حکم مثل لقطہ ہے، کسی فقیر کو دے دیں، خواہ باذن قاضی کسی مسجد میں صرف کردیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 261 تا 265، رضا فاؤنڈیشن، ملتقطاً)
مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1403ھ/ 1982ء) ایک سوال (مسجدکاوہ سامان جو کسی طرح بھی استعمال کے لائق نہیں، اس کو فروخت کرسکتے ہیں اور اس کی قیمت مسجد میں صرف کرسکتے ہیں یا کہ یونہی ضائع ہونے دیں؟) کے جواب میں لکھتے ہیں: ”وہ سامان فروخت کر کے قیمت مسجد پر صرف (خرچ)کرنا ،جائز ہے، کیونکہ فروخت نہ کرنے کی صورت میں وہ سارا مال ضائع ہو جائے گا۔“(فتاویٰ نوریہ، جلد 1، صفحہ 149، مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)
مسجد کا بیکار سامان بیچنے کے اختیار کے متعلق اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں: ”حاکم اسلام اور جہاں وہ نہ ہو تومتولی مسجد واہل محلہ کو جائز ہے کہ وہ چھپر کہ اب حاجت مسجد سے فارغ ہے، کسی مسلمان کےہاتھ مناسب داموں بیچ ڈالیں اور خریدنے والا مسلمان اُسے اپنے مکان، نشست یا باورچی خانے یاایسے ہی کسی مکان پر جہاں بے تعظیمی نہ ہو ڈال سکتا ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 258، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0074
تاریخ اجراء: 08 ربیع الاول 1447 ھ /02 ستمبر 2025 ء