مسجد کے چندے سے مدرسے کے استاد کو تنخواہ دینا کیسا؟

مسجد سے متصل مدرسے میں پڑھانے والے کو مسجد کے چندے سے تنخواہ دینا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک محلے کی مسجد میں عصر تا مغرب چھوٹے بچوں کا مدرسہ لگتا ہے، جس میں اس مسجد کے مؤذن صاحب بچوں کو مدرسہ پڑھاتے ہیں، مؤذن صاحب کو مؤذنی کی سیلری کے ساتھ ساتھ، مدرسہ پڑھانے کی اضافی سیلری بھی اسی مسجد کے چندے میں سے ہی دی جاتی ہے۔ اب مسجد سے متصل ایک مدرسہ تعمیر کیا گیا ہے، اور دونوں کا مین گیٹ ایک ہی ہے۔ وہی بچے اس مدرسے میں پڑھیں گے، بس مدرس اور اس مدرسے کی ٹائمنگ تبدیل ہوگی۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا مؤذن صاحب کا مدرسہ پڑھانے کی سیلری لے کر، مسجد میں مدرسہ پڑھانا اور ان کو مسجد کے چندے سے سیلری دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ نیز مسجد سے متصل جو مدرسہ تعمیر کیا گیا ہے، کیا وہاں پڑھانے والے مدرس کی سیلری مسجد کے چندے سے دی جاسکتی ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مؤذن صاحب کا اجرت لے کر مسجد میں مدرسہ پڑھانا، اگر مدرسہ تعمیر ہونے سے پہلے تھا، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہورہا ہے کہ مدرسہ ابھی تعمیر کیا گیا ہے، تو شرعاً اس صورت میں اجرت لے کرمسجد میں مدرسہ پڑھانا جائز تھا، مگر اب جبکہ مسجد کے ساتھ الگ سے مدرسہ تعمیر ہوچکا ہے اور وہاں بچوں کو مدرسہ پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے، تو اب ایسی صورت میں مدرسہ کے ہوتے ہوئے، مسجد میں تنخواہ لیکر مؤذن صاحب کا مدرسہ پڑھانا، شرعاً ہرگز جائز نہیں ہوگا کہ تنخواہ لے کر مسجد میں تعلیم قرآن دینے کا جواز ضرورت کی وجہ سے تھا، اور اب وہ یہاں نہیں پائی جارہی۔

اب جہاں تک مسجد کے چندے سے مدرسین کی سیلری دینے کا سوال ہے، تو مسجد کا چندہ مسجد کے عمومی اخراجات کے لئے ہوتا ہے، اسے مسجد سے الگ قائم شدہ مدرسے کے مدرس کی تنخواہ میں دینا جائز نہیں۔

مسجد میں اجرت پر تعلیم دینے کے ناجائز ہونے سے متعلق، حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق میں ہے:

قال قاضي خان في فصل المسجد ويكره أن يخيط في المسجد لأن المسجد أعد للعبادة دون الاكتساب۔۔۔ المعلم إذا علم الصبيان بأجر و إن فعلوا بغير أجر فلا بأس به

ترجمہ: قاضی خان نے مسجد کے احکام کی فصل میں ارشاد فرمایا: اور مسجد میں سلائی کرنا مکروہ ہے کیونکہ مسجد عبادت کیلئے بنائی گئی ہے، نہ کہ روزی کمانے کیلئے۔۔۔ اسی طرح معلم جب وہ بچوں کو اجرت پر تعلیم دے (تو یہ مکروہ ہے) اور اگر وہ بچوں کو بغیر اجرت تعلیم دیں تو کوئی حرج نہیں۔ (حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، جلد 1، صفحہ 352، مطبوعہ قاهرة)

بحر الرائق میں ہے:

و معلم الصبيان القرآن كالكاتب إن كان لأجر لا و حسبة لا بأس به

ترجمہ: اور بچوں کو تعلیم دینے والا شخص، کاتب کی طرح ہے، اگر وہ اجرت پر تعلیم دے تو جائز نہیں، اور اگر رضائے الہی کیلئے تعلیم دے تو کوئی حرج نہیں۔ (بحر الرائق، جلد 2، صفحہ 38،دار الکتاب الاسلامی)

مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی فقیہ ملت میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’آج کل پڑھانے والے عموماً اجرت لے کر ہی پڑھاتے ہیں، جب کہ اجرت لے کر مسجد میں پڑھانا جائز نہیں، اس لئے اجرت پر تعلیم دینا،دنیاوی کام ہے، مسجد دنیاوی کاموں کیلئے نہیں۔ اعلی حضرت محدث بریلوی رضی عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں: اگرپڑھانے والا (مسجد میں) اجرت لے کر پڑھاتا ہو تو اور بھی زیادہ ناجائز ہے کہ اب کارِ دنیا ہوگیا اور دنیا کی بات کے لئے مسجد میں جانا حرام ہے۔‘‘ (فتاوی فقیہ ملت، جلد 2، صفحہ 159، شبیر برادرز، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:’’معلّم اجیر (اجرت پر پڑھانے والے) کو مسجد میں بیٹھ کر تعلیم کی اجازت نہیں اور اجیر نہ ہو تو اجازت ہے‘‘۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 649، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

جہاں مسجد کے ساتھ جگہ کی تنگی، یا وسائل کی کمی کے سبب مدرسہ تعمیر نہ کیا جاسکتا ہو، وہاں ضرورت کے پیش نظر مسجد میں اجرت کے ساتھ مدرسہ پڑھانا جائز ہوگا، کیونکہ الاشباہ و النظائر میں ہے:

الضرورات تبیح المحظورات۔۔ما ابیح للضرورۃ یقدر بقدرھا

ترجمہ: ضرورتیں ممنوع امور کو جائز کر دیتی ہیں۔۔ (اور) جو کام ضرورت کی وجہ سے مباح (جائز) قرار دیا گیا ہو، تو وہ ضرورت تک ہی محدود رہتا ہے۔ (الاشباہ و النظائر، صفحہ 87، مطبوعہ کراچی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

و يكره كل عمل من عمل الدنيا في المسجد، و لو جلس المعلم في المسجد و الوراق یکتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة و الوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، و إن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي

ترجمہ: مسجد میں ہر دنیاوی کام مکروہ ہے، اور اگر مسجد میں معلم اور کاغذ لکھنے والے بیٹھیں، تو اگر معلم رضائے الہی کیلئے تعلیم دے اور کاغذ لکھنے والا، اپنے لئے کاغذ لکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ نیکی ہے، اور اگر اجرت پر ہوتو مکروہ ہے، مگر یہ کہ ان دونوں کیلئے کوئی ضرورت واقع ہوجائے (تو اس ضرورت کی وجہ سے اجرت پر بھی مسجد میں یہ کام جائز ہوگا) یونہی محیط سرخسی میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 5، الباب الخامس فی آداب المسجد، صفحہ 321، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

’’جدید مسائل پر علماء کی رائیں اور فیصلے‘‘ نامی کتاب میں ہے:’’مساجد میں مدارس کا قیام کبھی بربنائے ضرورت ہوتا ہے، مثلا ایک بڑا شہر ہے جہاں سنیوں کا کوئی ادارہ نہیں ہے یا اگر کوئی ادارہ ہے تو شہر کے تمام علاقوں کیلئے کافی نہیں ہے، اور صورت حال ایسی ہے کہ وہاں کے سنی مسلمانوں میں اتنی استطاعت نہیں کہ وہ کہیں الگ سے زمین خرید کر مدرسہ قائم کرلیں۔۔۔ اور اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اگر اپنا کوئی مدرسہ قائم نہیں ہوا تو شہر کے بھولے بھالے عوام بدمذہبیت کے چنگل میں پھنس کر ایمان کی عظیم دولت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ (لہذا اس صورتحال کے پیش نظر) تمام مندوبین کا اس پر اتفاق ہے کہ اصل حکم یہی ہے کہ مساجد میں مدرسے قائم کرنا جائز نہیں کیونکہ آج کے دور میں مدرسین تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں اور ان کا علوم دینیہ کے درس و تدریس میں اشتغال گوکہ بجائے خود دین کا بہت اہم کام ہے، تاہم تنخواہ سے مشروط ہونے کی وجہ سے دنیاوی کاروبار میں تبدیل ہوجاتا ہےاور مساجد میں دنیاوی کاروبار ناجائز و گناہ ہے۔ (لیکن) اگر واقعتاً مسجد میں مدرسہ قائم کرنے کی ضرورت یا حاجت متحقق ہو محض اس کا توہم نہ ہوتو مسجد میں تنخواہ دار مدرس کو بیٹھ کر بچوں کی تعلیم دینے کی اجازت ہے اور جہاں اس کی ضرورت وحاجت نہ پائی جائے وہاں کیلئے حکم وہی ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر اجرت پر تعلیم دینا ناجائز وگناہ ہے۔‘‘ (جدید مسائل پر علماء کی رائیں اور فیصلے، جلد 2، صفحہ 302، 306، 307 شنیر برادز، لاھور)

مسجد کا چندہ، مسجد میں رائج مصارف میں خرچ کیاجائے گا، چنانچہ فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر (زمین و دکانیں) مسجد کے مصارف رائجہ فی المساجد (یعنی مسجِدوں میں جن چیزوں میں خرچ کرنے کا عرف ہو ان) کے لئے وَقف ہے، تو بقدر معہود (یعنی عُرف کی مقدار میں) شیرینی و روشنی ختم (شریف) میں صَرف (یعنی خرچ کرنا) جائز (مگر) افطاری و مدرسہ میں ناجائز، نہ اسے تنخواہِ مدرسین وغیرہ میں صَرف کر سکتے ہیں کہ یہ اشیاء مصارف مسجِد (یعنی مسجد کے اَخراجات) سے نہیں، اور اگر اس نے ان چیزوں کی صراحۃً(یعنی واضح لفظوں میں)اجازت شرائط وقف میں رکھی تو ان میں بھی صَرف ہوسکے گا‘‘۔ ملخصاً (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 486، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی امجدیہ میں لکھتے ہیں: ’’(عطیہ و چندہ) دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں، یا کوئی اہلِ خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائیداد وقف کرے، اُسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صَرف کی جاسکتی ہے، دوسرے میں صرف کرنا جائز نہیں، مثلاً اگر مدرسہ کے لیے ہو، تو مدرسہ پر صَرف کی جائے اور مسجد کے لیے ہو، تو مسجد پر (خرچ کرنا ضروری ہے)۔ (فتاوی امجدیہ، حصہ 3، صفحہ 42، مکتبۃ رضویہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-503

تاریخ اجراء: 04 صفر المظفر 1446ھ / 10 اگست 2024ء