مسجد کے اوپر مدرسہ بنانا اور مدرسہ کی جگہ پر امام کی رہائش بنانا

مسجد کے اوپر مدرسہ بنا دینا کیسا ؟ مدرسے کی جگہ کو امام کی رہائش بنانا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری جامع مسجد  کئی سالوں سے قائم ہے،کچھ عرصہ قبل تقریباً  دو سال  پہلے  مسجد میں لینٹر ڈالنے کے لیے اور کچھ اس کے احاطے کو مزید بڑھانے کے لیے اس کی  دوبارہ تعمیر کی گئی، اس وقت انتظامیہ میں سے ہی ایک شخص نے اس مسجد کی دوسری منزل کو( جو کہ عینِ مسجد ہے ) مدرسہ میں تبدیل کر دیا، وہاں واش روم، وضو خانہ، وغیرہ بنا کر عورتوں کے لیے تعلیمِ قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا، اب روزانہ بعدِ فجر وہاں خواتین بالغہ، نابالغہ، شادی شدہ، غیر شادی شدہ پڑھنے کے لیے آتی ہیں، انہیں پڑھانے کے لیے بھی خاتون ہی مقرر ہیں۔اس اوپر والی منزل کا دروازہ اور سیڑھیاں مسجد سے باہر کر دیا گیا، یعنی اس کا لنک مسجد سے ختم کر دیا گیا، کلاس مکمل ہونے کے بعد اسے تالا لگا دیا جاتا ہے، وہاں مردوں کی جماعت بھی قائم نہیں کی جاتی، یعنی  اوپر والا پورشن مکمل طور پر بطورِ مدرسہ استعمال کیا جاتا ہے ہماری مسجد کے اکثر نمازی اس عمل کی مخالفت بھی کرتے ہیں، جس سے مسجد میں فتنہ و فساد بھی پیدا ہو رہا ہے، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ

(1) کیا عینِ مسجد  پر مدرسہ تعمیر ہو سکتا ہے اور اس کے لیے  مسجد کے اوپر واش روم  اور وضو خانہ بن سکتا ہے؟

(2)  واقف نے جب جگہ وقف کی تھی، تو  مسجد کے ساتھ کچھ معین جگہ مدرسہ کے لیے  بھی وقف کی تھی، کافی عرصہ  وہ جگہ خالی پڑی رہی، پھر امام صاحب کی رہائش کی ضرورت درپیش تھی، تو وہاں امام صاحب کو مکان  بنا کر دے دیا گیا، اب نئے امام صاحب کا اپنا گھر قریب ہے، تو  وہ اس رہائش کو استعمال نہیں کر رہے، گھر چلے جاتے ہیں، مسجد انتظامیہ نے  اس مکان کو کرایہ پر  دے دیا،کیا مدرسہ کے لیے وقف جگہ پر امام صاحب کی رہائش بنا سکتے ہیں اور پھر وقتی ضرورت نہ ہونے   کی وجہ سے اسے کرائے پر دے سکتے ہیں؟

(3) اگر مسجد کے اوپر مدرسہ نہیں بن سکتا، تو کیا  مدرسے  کی جگہ جہاں امام صاحب کی رہائش بناد ی گئی، اسے  مدرسہ میں تبدیل کر کے وہاں عورتوں کا مدرسہ منتقل کیا جا سکتاہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1) مسجد کی جگہ پر  مدرسہ، وضو خانہ  اور  استنجاخانہ وغیرہ  بنانا، ناجائز و گناہ اور حرام ہے ۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ جس جگہ  کو متعین کرکے مسجد  کے لیے صحیح طور پر وقف کردیا جائے،  وہ  قیامت تک کے لیے  تحت الثریٰ سے ساتوں آسمانوں تک مسجد ہو جاتی ہے  اور  بندے کی ملکیت سے نکل کر اللہ پاک کی مِلک میں داخل ہو جاتی ہے، اس کے بعد کسی شخص کا اس میں کسی طرح اپنا ذاتی تصرف کرنا یا اس کے اوپر، نیچے کسی بھی حصے کو  مسجد سے خارج کر کے  کسی اور مَصْرف، مثلاً مدرسہ، وضو خانہ، استنجا خانہ اور رہائش  وغیرہ  میں استعمال کرنا، شرعاً ناجائز و گناہ ہے اور بیان کردہ  صورت میں عینِ مسجد کے اوپر دوسری منزل کو مدرسہ، وضو خانہ اور استنجا خانہ میں  تبدیل کرنا وقف کے مصرف کو بدلنا ہے اور تغییرِ وقف، ناجائز و حرام  ہے، مزید یہ کہ عینِ مسجد کی جگہ پر استنجاء خانہ بنانا اسے نجاست سے آلودہ کرنا ہے جو کہ مسجد کی سخت بے ادبی و بے حرمتی، ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے، لہٰذا جن افراد نے مسجد کی جگہ کو خلافِ مصرف استعمال کیا، ان سب پر لازم ہے کہ عینِ  مسجد کی جگہ سے  مدرسہ، وضو خانہ  اور استنجا خانہ وغیرہ ختم کر کے اس جگہ کو دوبارہ مسجد میں شامل کریں اور اس کام کے لیے مسجد کا چندہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ یہ کام اپنی ذاتی رقم سے  کریں، نیز  ان پر اپنے اس عمل سےسچی  توبہ کرنا بھی لازم ہے۔

(2) جو چیز جس مقصد کے لیے وقف کی گئی اُسے اس مقصد سے پھیر کر دوسرے مصرف میں استعمال کرنا، ناجائز و حرام ہے، اگرچہ اس میں وقف کا ہی فائدہ ہو، لہٰذا مذکورہ جگہ جب مدرسہ کے لیے وقف ہے، تو اس پر امام صاحب کی رہائش بنانا اور  پھر اس کو کرایہ پر دے کر آمدنی کا ذریعہ بنانا، ناجائز و  گناہ ہے، جن افراد نے ایسا کیا، ان پر توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ اس جگہ کو  کرایہ سے چھڑوا کر مدرسہ میں تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔

(3) اوپر بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہو گیا کہ عینِ مسجد سے مدرسہ  وغیرہ ختم کرنا ضروری ہے  اور جب مدرسہ کے لیے الگ سے جگہ موجود ہے، تو عورتوں کی کلاس کو وہاں منتقل کر کے  شرعی پابندیوں کی رعایت کے ساتھ تعلیمِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔

بالترتیب جزئیات ملاحظہ کیجیے

مسجد تحت الثریٰ سے ساتوں آسمانوں تک مسجد ہی ہے، چنانچہ درمختار مع ردالمحتار میں ہے:

  لأنه مسجد إلى ‌عنان ‌السماء و كذا إلى ‌تحت ‌الثرى

ترجمہ: اس لیے کہ مسجد آسمانوں تک، یونہی تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار، جلد 2، صفحہ 517، مطبوعہ کوئٹہ)

وقف  تام ہونے سے بندے کی ملک سے نکل جانے اور اس میں ذاتی تصرف کے ناجائز  ہونے کے متعلق ہدایہ، تنویرالابصار اور دیگر کتبِ فقہ میں ہے،

واللفظ للآخر : فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن

ترجمہ: جب وقف تام اور لازم ہوجائے، تونہ اس کا مالک بنا جا سکتاہے اور نہ ہی کسی کواس کا مالک بنایا جاسکتا ہے اور  نہ ہی اِسے بطورِ عاریت اور رہن کے دیا جاسکتاہے۔(تنویر الابصار، کتاب الوقف، جلد6، صفحہ540، مطبوعہ کوئٹہ)

موقوفہ چیز کواس کی وقف شدہ حالت پر باقی رکھنا واجب ہونے کے متعلق فتح القدیر میں ہے:

 الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ

ترجمہ: وقف کو اس کی حالت پر باقی رکھنا واجب ہے۔ ( فتح القدیر، کتاب الوقف، جلد6، صفحہ212، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

 لایجوز تغییر الوقف عن ھیئتہ

ترجمہ: موقوفہ چیز کو اس کی ہیئت)حیثیت) سے بدلنا جائز نہیں ۔ (فتاوٰی عالمگیری    ،کتا ب الوقف،  الباب الرابع عشرفی المتفرقات، جلد2، صفحہ490، مطبوعہ کوئٹہ)

وقف کا مصرف تبدیل کرنے کے متعلق شیخ الاسلام و المسلمین اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت  الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء)  لکھتے ہیں:جو چیز جس غرض کے لئے وقف کی گئی دوسری غرض کی طرف اسے پھیرنا ناجائزہے ، اگرچہ وہ غرض بھی وقف ہی کے فائدہ کی ہو کہ شرطِ واقف مثلِ نصِ شارع صلی ا تعالیٰ علیہ وسلم واجب الاتباع ہے، درمختار کتاب الوقف (میں ہے):

فروع قولھم شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ

یعنی واقف کی شرط شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نص کی طرح واجب العمل ہے۔( فتاوی رضویہ ،کتاب الوقف، جلد16، صفحہ452، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

کسی جگہ کے مسجد ہو جانے کے بعد اس پر مدرسہ  وغیرہ کوئی چیز تعمیر نہیں کر سکتے،  چنانچہ درمختار میں ہے :

 أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد

  ترجمہ : بہرحال جب مسجد کی مسجدیت مکمل ہو گئی، پھر واقف اس پر عمارت وغیرہ بنانا چاہے، تو اسے منع کیا جائے گا، اگر  وہ کہے کہ میں نے  پہلے ہی اس کی نیت کی تھی، تو اس کی اس بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی، یہی تتارخانیہ میں ہے، تو جب واقف کے متعلق یہ حکم ہے، تو غیرِ واقف کو کیسے اجازت مل سکتی ہے؟ ضروری طور پر ایسی عمارت کو گرا دیا جائے گا، اگرچہ صرف مسجد کی دیوار پر بنائی جائے ۔ (درمختار ، کتاب الوقف ، جلد 6 ، صفحہ 549 ، 550 ،مطبوعہ کوئٹہ )

مسجد كے کسی حصہ پر مدرسہ اور استنجاخانہ  وغیرہ  بنانا ،حرام ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے مسجد کی جگہ میں سے کچھ حصہ مدرسہ میں شامل کر لیا  ہے، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ نیز مسجد کے کتنے فاصلے پر استنجا خانہ  بنانا چاہیے؟ تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: یہ فعل زید کا حرام قطعی ہے، ایک وقف جس غرض کے لئے وقف کیا گیا ہے اسی پر رکھا جائے اس میں تو تغیر نہ ہو، مگر ہیئت بدل دی جائے مثلاً دکان کو رباط کردیں یا رباط کو دکان،یہ حرام ہے... نہ کہ سرے سے موقوف علیہ بدل دیا جائے، متعلق مسجد کو مدرسہ میں شامل کرلیا جائے، یہ حرام ہے اور سخت حرام ہے... مسجد کا پشتہ کھودنا حرام اور اسے ماورائے مسجد دوسرے کام خصوصاً ایسے ناپاک کام میں صرف کرنا صریح ظلم وغصب و بےحرمتی مسجد ہے... مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں تصرف آدمی اپنی ملک میں کرسکتا ہے وقف مالک حقیقی جل وعلا کی ملک خاص ہے اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں کسی تصرف کا اختیار نہیں۔ مسجد کوبو سے بچانا واجب ہے، ولہٰذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام، مسجد میں دیا سلائی سلگانا حرام، حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا:

وان یمرفیہ بلحم نیئ۔

 یعنی مسجد میں کچا گوشت لے جانا جائز نہیں۔(ابن ماجہ ) حالانکہ کچے گوشت کی بوبہت خفیف ہے تو جہاں سے مسجد میں بو پہنچے وہاں تک ممانعت کی جائے گی...مسجد کو نجاست سے بچانا فرض ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 16، صفحہ 231، 32، 33، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

ایک مقام پر امامِ اہل سنّت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں: ”خود بانی نے کہ جامع مسجد بناکر اس مسجد کے ایک حصہ زمین میں اس کا زینہ بنایا یہ بھی ناجائز ہے کہ مسجد بعد تمامی مسجدیت کسی تبدیل کی متحمل نہیں ،  واجب ہے کہ اسے بھی زائل کرکے اسے خاص مسجد ہی رکھیں۔ درمختار میں ہے:

 امالوتمت المسجدیۃ ثم أراد البناء منع...

 مسلمانوں  پر اسے باقی رکھنا اور تاحد ِقدرت ہر جائز طریقہ سے اسے مسجد رہنے میں پوری کوشش کرنا فرض قطعی ہے، جو اس میں کوتاہی کرے گا سخت عذاب الٰہی کا مستحق ہوگا۔

قال ﷲ تعالیٰ:  

(وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ)

  ا تعالیٰ نے فرمایا: اس سے بڑھ کر ظالم کون جو ا کی مسجدوں کو روکے ان میں ذکر الٰہی ہونے سے، اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے، انہیں روانہ تھا کہ ان میں جاتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کیلئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب۔“   (فتاویٰ رضویہ، کتاب الوقف، جلد 16، صفحہ 492، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

مسجد کی جگہ  پر  ناجائز تصرف کرنے والوں پر لازم ہے کہ اپنی ذاتی رقم سے اس کو درست کریں، چنانچہ امامِ اہلِ سنّت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:  حرام حرام حرام، سخت گناہ، سخت کبیرہ، وہ شخص شرعاً اشد سزا کا مستحق۔ اس پر فرض ہے کہ حجرہ مسجد پر جو دیوار بنائی ہے ابھی ابھی ابھی فوراً فوراً ڈھا دے مسمار کردے، اور اس میں جو کچھ نقصان حجرہ مسجد یا دیوار حجرہ مسجد کو پہنچے اسے اپنے داموں سے ویسا ہی بنوادے جیسا پہلے بناہواتھا،

فان کل ضرر ببناء یضمن بالقیمۃ ماخلا بناء الوقف فیومر باعادتہ ماکان فی الاشباہ والنظائر والدرالمختار۔

عمارت کے ہر ضرر کا ضمان قیمت سے ادا کیا جاتا ہے، سوائے وقف کی عمارت کے کہ اس کے اعادہ کا حکم دیاجائے گا جیسے وہ عمارت پہلے تھی (الاشباہ والنظائر  ) ۔(فتاویٰ رضویہ، کتاب الوقف، جلد 16، صفحہ 307، 308، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

مدرسہ کی موقوفہ جگہ پر رہائش بنانا اور اسے کرایہ پر دینا، ناجائز و گناہ ہے، چنانچہ درمختارمیں ہے :

ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى

  ترجمہ :  اور یہ جائز نہیں کہ مسجد(وغیرہ وقف ) کی جگہ کو آمدنی کا ذریعہ یا رہائش گاہ بنایا جائے۔ (درمختار، کتاب الوقف، جلد 6، صفحہ 549، 550، مطبوعہ کوئٹہ)

موقوفہ جگہ کو کرایہ پر دینے کے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :وہ چھت مسجد ہے اسے مسجد سے توڑ کر دکان میں ڈال دینا ایک حرام اور اسے بالاخانہ حجرہ کا صحن وگزر گاہ کردینا، دوسرا حرام اور اسے کرایہ پر اٹھا دینا تیسرا حرام، اور اس کی آبچک کے لئے مسجد کا ایک اور حصہ توڑلیا محدود کردینا اور اس میں وضو ہونا چوتھا حرام۔ غرض یہ افعال حرام در حرام حرام درحرام ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، کتاب الوقف، جلد 16، صفحہ 416، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

مسجد و مدرسہ کی جگہ  پر  ناجائز تصرف کرنے والوں پر توبہ و استغفار لازم ہونے کے متعلق لکھتے ہیں :مسجد خواہ غیرِ مسجد کسی کی امانت اپنے صرف میں لانا اگرچہ قرض سمجھ کر ہوحرام وخیانت ہے ، توبہ واستغفار فرض ہے اور تاوان لازم پھر دے دینے سے تاوان اداہوگیا، وہ گناہ نہ مٹا جب تک توبہ نہ کرے۔ (فتاویٰ رضویہ، کتاب الوقف، جلد 16، صفحہ 489، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:  FSD -9055

تاریخ اجراء16 صفر المظفر 1446 ھ/ 22 اگست 2024 ء