
مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1968
تاریخ اجراء:04 ربیع الآخر 1446 ھ/ 08 اکتوبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
لوگ سرکاری ملازم کو کام کر دینے یا اس سےاپنا تعلق بہتربنانے کے لیے اس کو رقم دیتے ہیں یا پھر اس کی دعوتیں کرتے ہیں تاکہ وقتِ ضرورت یہ ہمارے کام آ سکے، اس کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سرکاری نوکری والے کو اس کے عہدے کی وجہ سے کوئی رقم، تحفہ یا دوسری چیز دینا یا اس کی دعوت کرنا رشوت ہے اور رشوت کا لین دین حرام ہے خواہ اپنے لیے لے یا کسی اور کے لیے لے کر اس تک پہنچائے۔
جامع الترمذی میں ہے: ”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم الراشی و المرتشی“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی۔ (جامع الترمذی، جلد 1، صفحہ 248، مطبوعہ: کراچی)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ رشوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”الرشوۃ بالکسر:ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید“ رشوت کسرہ کے ساتھ اس چیز کا نام ہے، جوآدمی حاکم یا اس کے غیر کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا وہ چیز اسے ابھارے اس کام پر ، جو رشوت دینے والا چاہتا ہے۔ (رد المحتار، جلد 8، صفحہ 42، مطبوعہ: کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے۔ کسی حالت میں جائز نہیں۔ جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے، یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 597، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”رشوت کے معنی اپنے مفاد کے لئے یا کسی کی حق تلفی کے لئے رقم دے کر وہ کام کرنا ہے۔ملخصا“ (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 314، بزم وقار الدین، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم