
کیا مسجد یا فنائے مسجد میں بھیک مانگنے والے کی مدد کر سکتے ہیں ؟
جواب: پر فنائے مسجد میں بھی مانگنے پر یہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ، جیسا کہ مشاہدہ بھی ہے کہ سائل کی گریہ و زاری اور بلند آواز سے نمازیوں کی توجہ بٹتی اور ان ...
امام کے ساتھ دنیاوی رنجش رکھنا اور پھر اسی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم؟
جواب: پر ملامت کی جائے گی،لہذاایسے شخص کو چاہیے کہ وہ امام صاحب کےساتھ دنیاوی معاملات کی وجہ سے رنجش نہ رکھے اوراس کام سے باز رہے۔ سنن ابی داؤد کی حدیث...
گزشتہ سالوں کی نماز روزوں کا فدیہ دینا ہو تو کس سال کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟
جواب: پر پانچ سال پہلے ایک صدقۂ فطر کی مقدار گندم کے لحاظ سے 100روپے تھی اور اُس وقت صدقۂ فطر واجب ہونے کے باوجود ادا نہیں کیا، اب ادا کرنا چاہتے ہیں اور ا...
کیا سوتیلی ماں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ؟
سوال: کیا سوتیلی ماں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے جبکہ وہ شرعی فقیر ہو اور سیدہ یا ہاشمیہ بھی نہ ہو ؟
مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو میک اپ کرنا کیسا ؟
جواب: پردے کا حکم دیا ہے اوران دونوں کے ایک دوسرے کو بلاضرورتِ شرعیہ چھونے کو حرام فرمایا ہے اوربیوٹی پارلر میں بے پردگی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کےجسم کوچھون...
جواب: پر دو دن (پیر ، منگل)کی فجر کی قضا نمازیں ہیں، اور وہ شخص یہ نمازیں ادا کرنا چاہتا ہے، تو یوں نیت کرے کہ پیر کی فجر کی نماز ادا کر رہاہوں ۔ ...
انا للہ وانا اليه راجعون لکھنے کا طریقہ
سوال: قرآن پاک میں آیتِ اِسْتِرْجاع اس طرح ہے:" انا للہ وانا الیہ رٰجعون "اب اگر کوئی خبر ِغم سن کر یوں لکھے:"انا للہ وانا الیہ راجعون " یعنی لفظِ " رٰجعون " میں کھڑی حرکت کی جگہ الف لکھ دے ، تو کیا یہ غلط ہو گا ؟ اور اگر غلط ہے ،تو کیا قرآنِ مجید کی نیت کیے بغیر ، محض خبرِ غم پر جواب وغیرہ کی نیّت سے لکھ سکتے ہیں ؟سائل : محمد حاشر مدنی ( فیصل آباد )
اسٹیل مِلز اور ٹھیکیداروں میں رائج سریے کی خریداری کی ایک ناجائز صورت
سوال: اگر کسی بڑے ٹھیکیدار کو چند ماہ یا مخصوص مدت کے بعد سریا چاہئے ہوتا ہے،تو وہ اسٹیل مِل سے پہلے ہی خریداری کا معاہدہ کر لیتا ہے،تاکہ اسٹیل مِل اس وقت تک اتنا سریا تیار کر کے دیدےاور آئے روز مٹیریل کی جو قیمتیں بڑھ رہی ہیں،اس سے بھی بچت ہو جائے۔ٹھیکیدار اور اسٹیل ملز کے مابین جو معاہدہ ہوتا ہے،اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں سریے کی کوالٹی، موٹائی ،وزن ،ادائیگی کی مدت اور ادائیگی کا مقام وغیرہ سب کچھ اس طرح طے کر کے خریداری ہوتی ہے کہ کسی معاملہ میں کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔البتہ قیمت کے حوالہ سے یہ طے ہوتا ہے کہ وقتی طور پر سریے کا جو ریٹ چل رہا ہے،اس کے مطابق قیمت دیدی جائے،لیکن قیمت کا اصل فیصلہ ادائیگی کے وقت کی قیمت کو دیکھ کر کیا جائے گا اور وہ اس طرح کہ سریے کی ادائیگی کے وقت اگر ریٹ موجودہ ریٹ جتنا ہی رہا یا بڑھ گیا،تو ادا شدہ قیمت ہی کافی ہو گی، ہاں اگر قیمت کم ہو گئی،تواس وقت کی کم قیمت ہی فائنل ہو گی اور بقیہ رقم ٹھیکیدار کو واپس کر دی جائے گی۔کئی اسٹیل ملز اسی طرح کا معاہدہ کر رہی ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ خریدوفروخت کا یہ طریقہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟