
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-9273
تاریخ اجراء:23 شعبان المعظم 1446 ھ / 22 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ مرحوم کے روزوں کا فدیہ ادا کرنا ہے، تو جس سال میں روزے قضا ہوئے تھے، اُس سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا یا ابھی جب ہم ادا کریں گے، اِس سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کی روشنی میں زکوٰۃ،صدقۂ فطر اور کفارات،وغیرہا کی ادائیگی میں ان کے واجب ہونے کے دن کی قیمت کا اعتبار ہوتا ہے، جس دن ادا کرنے ہیں،اُس دن کی قیمت کااعتبار نہیں، مثال کے طور پر پانچ سال پہلے ایک صدقۂ فطر کی مقدار گندم کے لحاظ سے 100روپے تھی اور اُس وقت صدقۂ فطر واجب ہونے کے باوجود ادا نہیں کیا، اب ادا کرنا چاہتے ہیں اور اب ایک صدقۂ فطر کی مقدار، اُس سے دوگنی ہوچکی ہے، تو پانچ سال پہلے جو ریٹ تھا، یعنی 100 روپے کے حساب سے ہی صدقۂ فطر ادا کرنا لازم ہو گا۔
اس تفصیل کے بعد صورتِ مذکورہ بالا کا متعین جواب یہ ہے کہ مرحوم کے جس سال کے روزے قضا ہوئے تھے، اُسی سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا، اب ادا کرتے وقت موجودہ سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرنالازم و ضروری نہیں، لہٰذا جس جس سال کے روزے قضا ہوئے تھے، ان سالوں کے صدقۂ فطر کی قیمت نکال کر کسی مستند صحیح العقیدہ سنی مفتی صاحب سے تصدیق لے کراس کے مطابق فدیے ادا کر دئیے جائیں۔
چنانچہ تنوير الابصار و در مختار میں ہے: ”(و جاز دفع القيمة في زكاة و عشر و خراج و فطرة و نذر و کفارۃ غیر الاعتاق) و تعتبر القيمة يوم الوجوب“ یعنی: زکوٰۃ، عشر، صدقۂ فطر، منت کی ادائیگی اور غلام آزاد کرنے والے کفارہ کے علاوہ ہر طرح کے کفارے میں قیمت ادا کرنا، جائز ہے اور قیمت ادا کرنے میں مذکورہ چیزیں لازم ہونے کے دن کی قیمت کااعتبارہوگا۔(الدر مختار مع رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب زکوٰۃ الغنم، جلد 3، صفحه 250، مطبوعہ کوئٹہ)
روزوں کے فدیے سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”قیمت میں نرخ بازار آج کا معتبر نہ ہوگا جس دن ادا کررہے ہیں، بلکہ روزِ وجوب کا، مثلاً اُس دن نیم صاع گندم کی قیمت دو آنے تھی، آج ایک آنہ ہے، تو ایک آنہ کافی نہ ہو گا، دو آنے دینا لازم اور (اگر اُس وقت) ایک آنہ تھی، اب دوآنے ہوگئی، تو دو آنے ضرور نہیں، ایک آنہ کافی۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 531، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم