آنکھ میں ڈراپ ڈالنا ہو تو روزہ رکھنے کا حکم

ہر آدھے گھنٹے بعد آنکھوں میں ڈراپس ڈالنے ہوں تو روزے کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میری آنکھیں پچھلے دس پندرہ سال سے خراب ہیں، مجھے ایک بیماری ہے جس میں پورا جسم خشک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے میری آنکھیں بھی خشک ہیں، آنکھوں کو تر رکھنے کیلئے مجھے ہر آدھے، ایک گھنٹے بعد آنکھوں میں ڈراپس، جیل وغیرہ ڈالنا پڑتا ہے، اب روزے کے دوران اگر میں آنکھوں میں ڈراپس وغیرہ نہ ڈالوں تو میری آنکھیں خراب ہوجائیں گی، ایسی صورت میں میرے لئے کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

روزے کی حالت میں آنکھوں میں ڈراپس، جیل وغیرہ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہےکیونکہ آنکھ اور حلق کے درمیان ایک مَنفذ یعنی راستہ ہے جس کی وجہ سے دوا حلق میں پہنچ جائے گی اور روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اب جبکہ آپ کو آنکھ خشک ہوجانے والی بیماری ہے جس کے سبب ڈراپ ڈالنا ضروری ہے، تو روزے سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگرروزے کی حالت میں آنکھ کے زیادہ دیر خشک ہونے کے باعث آنکھوں کے خراب ہوجانے جیسے آنکھ کے پردے کو نقصان پہنچنے، آنکھ میں انفیکشن ہوجانے، یا ناقابل برادشت تکلیف یا جلن ہونے کا واقعی صحیح اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں فی الحال آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی، ہاں جب بیماری ختم یا کم ہوجائے جس کی وجہ سے ڈراپس ڈالے بغیر بھی گزارہ ہوسکتا ہو، تو اب روزہ رکھنا ہوگا اور پچھلے تمام چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا بھی کرنی ہوگی، البتہ اگر بیماری ختم یا کم نہ ہواور اسی حالت میں موت کا وقت قریب آجائے تو اب لازم ہوگا کہ فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کردیں۔

خیال رہے آنکھ کے خشک ہونے کے سبب اس کے خراب ہوجانے کا محض وہم و گمان کافی نہیں ہوگا، بلکہ اس کا ظن غالب ہونا ضروری ہے اور ظن غالب تین طرح سے حاصل ہوتا ہے، یا تو اس کی کوئی واضح علامت ہو، یا سابقہ ذاتی تجربہ ہو، یا کسی ایسے ماہر طبیب کے بتانے سے معلوم ہو جس پر پورے طور پر اعتماد جمتا ہو ۔

آنکھ میں ڈراپ ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:

”والمفطر إنما هو الداخل من المنافذ“

ترجمہ: اور روزہ توڑنے والی چیز وہ ہوتی ہے جو منافذ(یعنی راستوں )کے ذریعے(پیٹ یا دماغ میں )داخل ہو۔  (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 395، دار الفکر، بیروت)

فتاوی فیض الرسول میں ہے: ’’ضابطہ کلیہ یہ ہےکہ جماع اور اس کے ملحقات کے علاوہ روزہ کوتوڑنے والی صرف وہ دوا اور غذا ہے جو مسامات اور رگوں کے علاوہ کسی منفذ سے صرف دماغ یا پیٹ میں پہنچے۔ (فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ516، شبیر برادرز، لاہور)

آنکھ خشک ہوجانے کے سبب اگر خراب ہونے کا صحیح اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’(الأعذار التي تبيح الإفطار۔ ۔ ۔ ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين‘‘

 ترجمہ: وہ اعذار جن میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، ان میں سے ایک عذر بیماری ہے، اگر بیمار کو اپنی جان کے تلف ہونے یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خوف ہو تو وہ بالاتفاق روزہ چھوڑ سکتا ہے، اور اگر اسے بیماری کے بڑھنے یا طول پکڑنے کا اندیشہ ہو تو ہمارے نزدیک تب بھی روزہ چھوڑ سکتا ہےاور جب وہ روزہ چھوڑے گا تو اس پر قضا لازم ہوگی، یونہی محیط میں ہے۔ پھر اُس (جان کے ضائع ہونے یا عضو کے تلف ہونے یا بیماری کے بڑھنےیا دیر میں صحیح ہونے) کا علم مریض کے اجتہاد سے ہوگا، اور اجتہاد محض وہم نہیں بلکہ غالب گمان پر مبنی ہوگا جو کسی علامت، تجربے یا کسی مسلمان غیر فاسق طبیب کی خبر سے حاصل ہو، یونہی فتح القدير میں ہے۔ اور جو تندرست شخص روزہ رکھنے سے بیمار ہونے کا اندیشہ رکھتا ہو، تو وہ بھی مریض کے حکم میں ہوگا، یونہی تبیین میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد1، صفحہ206، 205، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر واقعی (کوئی ) کسی ایسے مرض میں مبتلا ہے جسے روزہ سے ضرر پہنچتا ہے تو تاحصولِ صحت اُسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے اُس کے بدلے اگر مسکین کو کھا ناد ے تو مستحب ہے ثواب ہے جبکہ اُسے روزہ کا بدلہ نہ سمجھے اور سچے دل سے نیت رکھے کہ جب صحت پائے گا جتنے روزے قضا ہُوئے ہیں ادا کرے گا۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ520، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: ’’مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔ ۔ ۔ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے، محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں: (1)اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا(2)اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا(3) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔ “ (بہار شریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

بیماری دور ہونے سے پہلے موت کا وقت آجائے تو فدیہ کی وصیت کردی جائے، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے: ”جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفارہ دینے کی اجازت نہیں، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبلِ شفا موت آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں۔ ‘‘ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 547، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  FAM-662

تاریخ اجراء:  13 شعبان المعظم6144ھ/12 فروری 2025ء