غسل فرض ہونے پر بغیر غسل کے روزہ رکھنا کیسا؟

غسل فرض ہو تو غسل کیے بغیر روزہ رکھ سکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی پر غسل فرض ہو تو اسے غسل کے بغیر روزہ رکھنا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

غسل فرض ہونے کی صورت میں غسل کرے بغیر بھی روزہ رکھنا شرعاً جائز ہے، روزہ ہوجائے گا، کیونکہ غسل فرض ہونے کی حالت، روزہ رکھنے کے مُنافی(خلاف) نہیں۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے غسل کر لیا جائے۔ اگر مکمل غسل ممکن نہ ہو، تو کم از کم غرغرہ اور ناک میں پانی کو نرم حصے سےآگے ناک کی جڑ تک پہنچانا، یہ دونوں کام سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے کرلے کہ پھر روزے کی حالت میں نہیں ہوسکیں گے۔ اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے اور روزہ رکھ لے، تو بھی مضائقہ نہیں۔ بعد میں جب روزے کی حالت میں غسل کرے، تو عام طریقے سے غسل کرے، صرف یہ احتیاط کرے کہ کلی میں غرغرہ نہ کرے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ نہ کرے کہ ان میں ذرا سی بے احتیاطی ہونے سے روزہ ٹوٹ سکتا ہے۔

غسل فرض ہونے کی صورت میں بغیر غسل کئے بھی روزہ رکھ لینا جائز و درست ہے، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے: 

(قال): رجل أصبح في شهر رمضان جنبا فصومه تام۔۔۔۔ قوله تعالى{فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ}[البقرة: 187] إلى قوله{حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ}[البقرة: 187]، و إذا كانت المباشرة في آخر جزء من أجزاء الليل مباحة فالاغتسال يكون بعد طلوع الفجر ضرورة وقد أمر الله تعالى بإتمام الصوم

ترجمہ: فرمایا: اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں صبح کے وقت جنابت کی حالت میں ہو، تو اس کا روزہ کامل ہے۔۔۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان(دلیل) ہے: اب تم اپنی بیویوں کے پاس جا سکتے ہو۔ اللہ عزوجل کے اس فرمان تک: یہاں تک کہ تم پر سفید دھاگا (صبح کی روشنی) سیاہ دھاگے (رات) سے ظاہر ہوجائے۔ اور جب رات کے آخری حصے میں مباشرت جائز ہے، تو لازمی ہے کہ غسل طلوعِ فجر کے بعد ہو، اور (اس کے باوجود) اللہ تعالی نے روزہ پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (مبسوط سرخسی، جلد 3، صفحہ 56،دار المعرفۃ، بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

و لو أصبح جنبا في رمضان فصومه تام عند عامة الصحابة مثل علي و ابن مسعود و زيد بن ثابت و أبي الدرداء و أبي ذر و ابن عباس و ابن عمر ومعاذ بن جبل - رضي اللہ تعالى عنهم۔۔۔ و لعامة الصحابة قوله تعالى{اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْ} [البقرة: 187] إلى قوله{فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ۪- وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ} [البقرة: 187] أحل اللہ عز وجل الجماع في ليالي رمضان إلى طلوع الفجر، و إذا كان الجماع في آخر الليل يبقي الرجل جنبا بعد طلوع الفجر لا محالة فدل أن الجنابة لا تضر الصوم

 ترجمہ: اور اگر کوئی شخص رمضان میں جنابت کی حالت میں صبح کرے، تو اس کا روزہ مکمل ہے، صحابۂ کرام کی اکثریت کے نزدیک، جیسے حضرت علی، ابن مسعود، زید بن ثابت، ابو درداء، ابو ذر، ابن عباس، ابن عمر اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم۔ اور صحابۂ کرام کی اکثریت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان (دلیل) ہے: تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ اس فرمان تک: اب تم ان سے مباشرت کرو اور جو اللہ نے تمہارے لیے لکھا ہے اسے تلاش کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تم پر سفید دھاگا (صبح کی روشنی) سیاہ دھاگے (رات) سے ظاہر ہو جائے۔ اللہ عزوجل نے رمضان کی راتوں میں فجر کے طلوع ہونے تک جماع کو حلال کیا ہے، اور جب رات کے آخری حصے میں جماع جائز ہے، تو لازمی ہے کہ انسان فجر کے بعد جنابت کی حالت میں رہے، اس سے معلوم ہوا کہ جنابت روزے کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 92،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہتر یہ ہےکہ سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے غسل کرلے،ورنہ کم از کم غرغرہ اور ناک میں مبالغے کے ساتھ پانی چڑھا لے، چنانچہ بہار شریعت میں ہے: ”رمضان میں اگر رات کو جنب ہوا توبہتریہی ہے کہ قبلِ طلوعِ فجر نہالے کہ روزے کا ہر حصہ جنابت سے خالی ہو اور اگر نہیں نہایا،تو بھی روزہ میں کچھ نقصان نہیں، مگر مناسب یہ ہے کہ غَرغَرہ اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا، یہ دو کام طلوعِ فجر سے پہلے کر لے کہ پھر روزے میں نہ ہو سکیں گے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 326، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

روزے کی حالت میں غرغرہ اور ناک میں مبالغے کے ساتھ پانی چڑھانے کی اجازت نہیں، چنانچہ نور الایضاح مع مراقي الفلاح میں ہے:

(و) یسن (المبالغۃ فی المضمضۃ) و ھو ایصال الماء لراس الحلق (و) المبالغۃ فی (الاستنشاق) و ھی ایصالہ الی فوق المارن (لغیر الصائم) و الصائم لا یبالغ فیھما خشیۃ افساد الصوم۔ لقولہ علیہ الصلاۃ و السلام: بالغ فی المضمضۃ و الاستنشاق الا ان تکون صائما

ترجمہ: کلی کرنے میں مبالغہ یعنی حلق کی جڑ تک پانی پہنچانا اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ یعنی ناک کے نرم گوشے سے اوپر تک پانی پہنچانا، اس شخص کے لئے سنت ہے، جو روزے سے نہ ہو، جبکہ روزہ دار ان دونوں چیزوں میں روزہ ٹوٹنے کے خطرے کےپیشِ نظر مبالغہ نہیں کرےگا، اس لئے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، مگر یہ کہ روزے سے ہو (تو مبالغہ نہ کرو)۔ (نور الایضاح مع مراقی الفلاح، صفحہ 70، دار الكتب العلمية، بيروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-895

تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1446ھ/ 23 ستمبر 2025ء