کیا مریض کو بھی رمضان کے روزے کی فضیلت ملے گی؟

کیا روزہ نہ رکھنے والےمریض کو رمضان کے روزے کی فضیلت ملے گی؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ ہم نے ایک حدیث پاک سنی ہے:

جس نے رمضان کا روزہ حصول ثواب کے لئے رکھاتو یہ اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔

1.اس کے متعلق میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی یہ حدیث پاک ہے؟

2 بنیادی طور پر میرا سوال یہ ہے کہ جو شخص روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو ،جیسے مریض وغیرہ اور ان کی نیت یہ ہو کہ اگر وہ روزہ رکھنے پر قادر ہوتے تووہ بھی روزہ رکھتے تو کیا وہ بھی اس فضیلت کے مستحق ہوں گے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

1.جی ہاں! اس طرح کی حدیث پاک متعدد کتب حدیث جیسے بخاری، مسلم، ابن ماجہ، ابو داؤد، ترمذی،وغیرہ میں موجود ہے۔ اس حدیث پاک میں اور اس طرح کی دیگر احادیث مبارکہ ، جن میں مختلف نیک کاموں پر گناہوں کی معافی کی بشارت موجو دہے، ان میں گناہوں کی معافی سے مراد گناہ صغیرہ ہوتے ہیں۔

بخاری شریف کی حدیث پاک ہے:

عن أبي هريرة قال:قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم:من صام رمضان، إيمانا و احتسابا،غفر له ما تقدم من ذنبه

یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :جس نے ایمان اور طلب ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (الصحیح للبخاری، جلد 1، صفحہ 16، حدیث 38، دار طوق النجاۃ)

عمدۃ القاری میں ہے:

المشهور من مذاهب العلماء في هذا الحديث وشبهه كحديث غفران الخطايا بالوضوء، و بصوم يوم عرفة، ويوم عاشوراء ونحوه أن المراد غفران الصغائر فقط، كما في حديث الوضوء: ما لم يؤت كبيرة ما اجتنبت الكبائر۔۔۔۔۔ فإن قيل: قد ثبت في الصحيح هذا الحديث في قيام رمضان، و الآخر في صيامه، و الآخر في قيام ليلة القدر، و الآخر في صوم عرفة: أنه كفارة سنتين، وفي عاشوراء أنه كفارة سنة، و الآخر: رمضان إلى رمضان كفارة لما بينهما، والعمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والجمعة إلى الجمعة كفارة لما بينهما، و الآخر: إذا توضأ خرجت خطايا فيه إلى آخره، و الآخر: مثل الصلوات الخمس كمثل نهر إلى آخره، و الآخر: من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه و نحو ذلك، فكيف الجمع بينها؟ أجيب: إن المراد أن كل واحد من هذه الخصال صالحة لتكفير الصغائر، فإن صادفها كفرتها، وإن لم يصادفها فإن كان فاعلها سليما من الصغائر لكونه صغيرا غير مكلف، أو موفقا لم يعمل صغيرة، أو عملها وتاب، أو فعلها وعقبها بحسنة أذهبتها كما قال تعالى: {اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ} فهذا يكتب له بها حسنات، و يرفع له بها درجات

یعنی اس حدیث پاک اور اس سے ملتی جلتی دیگر احادیث جیسے وضو سے گناہ معاف ہونے والی حدیث، یوم عرفہ اور یوم عاشورہ کے روزے سے گناہ معاف ہونے والی احادیث اور دیگر اس طرح کی احادیث کے متعلق علمائے کرام کا مشہور مذہب یہی ہے کہ اس سے مراد فقط گناہ صغیرہ ہیں جیسے کہ وضو والی حدیث پاک میں ہے کہ جب تک کبیرہ گناہ سے بچا جائے۔۔۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ صحیح بخاری میں یہ حدیث پاک ماہ رمضان کے قیام کے متعلق ہے ، ایک اور مقام پر اس طرح کی حدیث پاک روزے کے متعلق ہے، ایک جگہ لیلۃ القدر کے متعلق ہے، ایک جگہ عرفہ کے روزے کے متعلق ہے کہ وہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، یوم عاشورا کے روزے کے متعلق ہے کہ ایک سال کے گناہوں کاکفارہ ہے، ایک اور حدیث پاک میں ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، ایک جمعہ دوسرے جمعے تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ جب کوئی وضو کرتا ہے، تو اس کی خطائیں نکل جاتی ہیں۔ ایک اور حدیث پاک میں پانچ نمازوں کو نہر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہوگی، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ (اب اعتراض یہ ہے کہ) ان سب میں تطبیق کیسے ہو گی ؟ اس کا یہ جواب دیا گیا کہ یہ سارے نیک اعمال صغیرہ گناہوں کا کفارہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی خصلت گناہ صغیرہ ذمہ پر ہونے کی صورت میں اس صغیرہ گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی خصلت اس حال میں پائی جائے کہ بندے کے ذمہ پر گناہ صغیرہ نہ ہو بایں صورت کہ یہ نیک کام کرنے والا نابالغ ہے یا توفیق یافتہ ایسا شخص ہے جس نے کبھی صغیرہ گناہ کیا ہی نہیں یا اس نے گناہ صغیرہ تو کیا لیکن توبہ کر لی یا گناہ صغیرہ کیا اور اس کے بعد کوئی نیکی کر لی، جس نے اس گناہ کو ختم کر دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں تو ان صورتوں میں مذکورہ نیکیاں کرنے کے بدلے مزید نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے درجات بلند کر دئیے جاتے ہیں۔ (عمدۃ القاری، جلد 1، صفحہ 233، بیروت)

تفہیم البخاری میں ہے: ”علماء نے انہیں صغائر سے خاص کیا ہے،کیونکہ اس کی مثل دوسری احادیث میں یہ قید ہے کہ وہ کبائر سے بچتا ہو، کیونکہ وہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں۔“ (تفہیم البخاری، جلد 1، صفحہ 164، تفہیم البخاری بپلی کیشنز، فیصل آباد)

مراۃ المناجیح میں ہے: ”رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (مراۃ المناجیح، جلد 3، صفحہ 134، نعیمی کتب خانہ)

2 .جو شخص واقعی روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو ، لیکن اس کی نیت یہی ہے کہ اگر وہ روزہ رکھنے پر قادر ہوتا، تو ضرور روزہ رکھتا، تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ بھی اس فضیلت کا حق دار ہوگا جیسا کہ مذکورہ حدیث پا ک کے تحت شارحین نے بیان کیا ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

فإن قيل: المعذور كالمريض إذا ترك الصوم فيه، و لو لم يكن مريضا لكان صائما، و كان نيته الصوم لولا العذر هل يدخل تحت هذا الحكم؟ . الجواب: نعم، كما أن المريض إذا صلى قاعدا لعذر له ثواب صلاة القائم

یعنی اگر یہ سوال کیا جائے کہ کوئی معذور شخص جیسے مریض اگر روزہ چھوڑ دے، اگر وہ مریض نہ ہوتا تو ضرور روزہ رکھتا اور اور ابھی بھی اگر عذر نہ ہوتا تو اس کی نیت روزہ رکھنے کی ہی ہے، کیا ایسا شخص بھی اس حکم کے تحت داخل ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل داخل ہوگا، جیسے مریض اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو اس کو کھڑے ہو کر پڑھنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد 1، صفحہ 234، بیروت)

فیض القدیر میں ہے:

قال الكرماني: و لو ترك الصوم فيه لمرض ونيته أنه لولا العذر صامه دخل في هذا الحكم كما لو صلى قاعدا لعذر فإن له ثواب القائم

یعنی علامہ کرمانی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ اگر کسی نے مرض کی وجہ سے روزہ چھوڑا اور اس کی نیت یہ ہے کہ اگر عذر نہ ہوتا تو وہ روزہ رکھتا، تو وہ شخص بھی اس حکم میں داخل ہوگا جیسے کوئی شخص عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے، تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔ (فیض القدیر، جلد 6، صفحہ 160، تحت الحدیث 8775، بیروت)

تفہیم البخاری میں ہے: ”رمضان کے روزوں سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے، بشرطیکہ کوئی بھی روزہ بلا عذر نہ چھوڑے اور اگر عذر کے باعث روزے نہ رکھ سکا ہو، مگر اس کی نیت یہ تھی کہ اگر عذر نہ ہوتا، تو وہ ضرور روزے رکھتا، وہ شخص بھی اس عنایت میں داخل ہے۔ (تفہیم البخاری، جلد 1، صفحہ 165، تفہیم البخاری پبلی کیشنز، فیصل آباد)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-3453

تاریخ اجراء: 27 شوال المکرم 1446 ھ/26 اپریل 2025ء