
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ
(1) قرآن و حدیث کی روشنی میں افطار کا صحیح وقت کیا ہے ؟
(2)بعض افراد کا کہنا ہے کہ غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا غلط ہے، بلکہ افطار کا اصل وقت اس کے تقریباً دس منٹ بعد شروع ہوتا ہے اور اس پر وہ قرآن کی آیت مبارکہ ﴿ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ﴾ ترجمہ: پھر رات آنے تک روزوں کو پورا کرو۔ (پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت187)سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں افطار کا وقت ”لیل“ یعنی رات بیان کیا گیا ہے اور رات میں اندھیرا ہوتا ہے، جبکہ عین غروبِ آفتاب کے وقت اندھیرا نہیں ہوتا، لہٰذا اس وقت افطاری کرنا غلط ہے، اس کی جگہ پہلے نمازِ مغرب ادا کرلی جائے، پھر جب اندھیرا چھا جائے، تو افطار کر یں گے۔ اس بارے میں دلائل کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجئے۔
(3) مغرب کے بعدجب اندھیرا چھا جائے، اُس وقت افطار کرنے کے قائلین کی طرف سے یہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما غروب آفتاب کے بعد نمازِ مغرب ادا کر کے افطار کیا کرتے تھے۔ اس کا جواب بھی ارشادفرما دیجئے؟سائل: محمد اعجاز عطاری (راولپنڈی)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ افطار کا وقت ”غروبِ آفتاب“ ہے اور اس پر اکابر علمائے کرام نے اہل علم کا اجماع نقل فرمایا ہے، لہٰذا جب غروبِ آفتاب کا ظن غالب ہو جائے، تو اُس کے فوراً بعد افطار ی کرنا بالکل جائز ودرست ہے، بلکہ غروب کا ظن غالب ہو جائے، تو بلاوجہ افطار میں تاخیر کرنا خلافِ مسنون ہے، لہٰذا جواسے غلط کہتا ہے، وہ قرآن و حدیث کے دلائل سے بے علم یا غلط فہمی کا شکارہے، اُس پر لازم ہے کہ عوام میں ایسی غلط فہمیاں پھیلانے سے احتراز کرے۔
اوقاتِ سحر و افطار کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
﴿ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ﴾
ترجمہ کنز العرفان: کھاؤ اور پیویہاں تک کہ تمہارے لئے فجر سے سفیدی (صبح) کا ڈورا سیاہی(رات) کے ڈورے سے ممتاز ہوجائے، پھر رات آنے تک روزوں کو پورا کرو۔ (پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت187)
وقتِ افطار تفاسیر کی روشنی میں:
متعدد تفاسیر میں ﴿ اِلَى الَّیْلِ ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہاں ”لیل / رات“ سے مراد غروبِ آفتاب ہے۔ تفاسیر کے چند حوالہ جات ملاحظہ کیجئے:
تفسیرماوردی میں ہے: ”يعني به غروب الشمس“ ترجمہ: لیل سے مراد غروبِ شمس ہے۔ (تفسیر ماوردی، ج 1، ص 247، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
”یقتضی الافطار عند غروب الشمس حکما شرعیا“
ترجمہ: لیل/ رات کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ غروبِ شمس کے وقت افطار کرنا حکمِ شرعی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج 1، ص 317، دار طیبہ، بیروت)
تفسیر روح البیان میں ہے:
”﴿ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ ﴾ اى اديموا الإمساك عن المباشرة والاكل والشرب في جميع اجزاء النهار إِلى غاية اللیل وهو دخول الليل وذاك بغروب الشمس“
ترجمہ: روزہ مکمل کرو یعنی رات تک دن کے تمام اجزاء میں مباشرت، کھانے اور پینے سے بچے رہو اور رات کا داخل ہونا غروبِ شمس کے ساتھ ہوتا ہے۔ (تفسیر روح البیان، ج1، ص 300، دار الفکر، بیروت)
وقتِ افطار احادیث کی روشنی میں:
کئی احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افطار کا وقت غروبِ آفتاب ہے۔چند احادیث درج کی جا رہی ہیں:
*حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشادفرمایا:
”إذا اقبل الليل من هاهنا وادبر النهار من هاهنا وغربت الشمس فقد افطر الصائم“
ترجمہ: جب یہاں سے رات آئے اور یہاں سے دن جائے اور سورج غروب ہو جائے، تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔ (صحیح بخاری، ج 3، ص 36، رقم الحدیث: 1954، دارطوق النجاۃ، بیروت )
علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”أي أقبل ظلمة الليل من جانب المشرق وأدبر ضوء النهار من جانب المغرب“
ترجمہ: یعنی جب مشرق کی جانب سے رات کی تاریکی آجائے اور مغرب کی جانب سے دن کی روشنی چلی جائے، تو افطار کر لو۔ (شرح المشکوٰۃ للطیبی، ج5، ص 1585، مكتبة نزار مصطفى الباز، الریاض)
*نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لا تزال امتی بخیر ما عجلوا الافطار“
ترجمہ: میری امت ہمیشہ خیر پہ رہے گی، جب تک افطار میں جلدی کرے گی۔ (مسند احمد، ج35، ص241، رقم الحدیث21312، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
یہ حدیث مبارک بھی دلیل ہے کہ جب غروبِ آفتاب کا تحقق ہو جائے، تو بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے اور جو گروہ اس کے خلاف رائے رکھتا ہے، اس حدیث میں ان کا رد ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”واتفق العلماء ان محل ذلک اذا تحقق غروب الشمس بالرؤیۃ او باخبار عدلین و کذا عدل واحد فی الارجح قال ابن دقیق العید فی ھذا الحدیث رد علی الشیعۃ فی تاخیرھم الفطر الی ظھور النجوم“
ترجمہ: علماء کا اتفاق ہے کہ اس کا محل یہ ہے کہ جب آنکھوں سے دیکھنے یا دو عادل افراد کی خبر دینے اور اسی طرح ارجح قول کے مطابق ایک عادل کی خبر دینے کے ساتھ غروبِ آفتاب ثابت ہو جائے (اب بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے)، علامہ ابن دقیق العید نے فرمایا: شیعہ ستارے ظاہر ہونے تک افطار میں تاخیر کرتے ہیں، اس حدیث میں ان کا رد ہے۔ (فتح الباری، ج 4، ص 199، دار المعرفۃ بیروت)
*حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”كان النبي صلى اللہ عليه وسلم يفطر قبل أن يصلي على رطبات فإن لم تكن رطبات فتميرات فإن لم تكن تميرات حسا حسوات من ماء“
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نمازِ مغرب سے پہلے چند تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں، تو خشک چھواروں سے روزہ افطار فرماتے اور اگر چھوارے بھی نہ ہوتے، تو پانی کے چند گھونٹ نوش فرمالیتے۔ (جامع ترمذی، ج2، ص 71، رقم الحدیث: 696، دار الغرب الاسلامی، بیروت)
*حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
”ما رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قط صلى صلاة المغرب حتى يفطر ولو على شربة من ماء“
ترجمہ: میں نے کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ِ مغرب ادا فرماتے ہوئے نہ دیکھا، مگر یہ کہ آپ اس سے پہلے ہی افطار فرما چکے ہوتے، اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ کے ساتھ افطار فرماتے۔ (صحیح ابن حبان، جلد8، صفحہ 274، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
ان دونوں روایات کامستفاد بھی یہی ہے کہ غروب ِآفتاب افطاری کا وقت ہے، اگرچہ ابھی اندھیرا نہیں چھایا ہو، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ نمازِ مغرب میں تعجیل فرماتے حتی کہ نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد بھی کچھ اجالا باقی ہوتا تھا، تو بدیہی سی بات ہے کہ افطار بدرجہ اولیٰ اجالے میں ہوتا تھا۔ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”كنا نصلي مع رسول الله صلی اللہ علیہ و الہ وسلم المغرب ثم ننصرف إلى السوق ولو رمي بنبل أبصرت مواقعها “
ترجمہ: ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے تھے، پھر ہم بازار جاتے اور کوئی تیر پھینکتا، تو اس کے تیر گرنے کی جگہ دکھائی دیتی۔ (سنن ابن ماجہ، ج 1، ص 224، رقم الحدیث687، دار احیاء الکتب العربیۃ، بیروت)
*حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ذریعےامتِ مسلمہ کو تمام نمازوں کے اوقات بیان کئے گئے، احادیث کی کتب میں اس حوالے سے تفصیلی روایات موجود ہیں، ان میں یہ صراحت موجود ہے کہ نمازِ مغرب کا وقت وہ ہے کہ جب روزہ دار روزہ افطار کرتاہے یعنی افطار اور نمازِ مغرب کا ایک ہی وقت ہے اور اس پہ اتفاق ہے کہ غروبِ آفتاب ہوتے ہی مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی افطار کا وقت بھی شروع ہوجائے گا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”و صلی بی یعنی المغرب حین افطر الصائم “
ترجمہ: حضرت جبریل علیہ السلام نے مجھے نمازِ مغرب اس وقت پڑھائی کہ جب روزہ دار اپنا روزہ افطار کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد، ج 1، ص 107، رقم الحدیث 393، المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”یعنی حین غابت الشمس والاجماع علی ان وقت المغرب غروب الشمس“
ترجمہ: یعنی جب سورج غائب(غروب) ہوجائے، (تو مغرب کا وقت ہو جاتا ہے) اور اس پر اجماع ہے کہ مغرب کا وقت غروبِ شمس ہے۔ (شرح سنن ابی داؤد للعینی، ج 2، ص 240، مطبوعہ الریاض )
محدث کبیر حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ای دخل وقت افطارہ بان غابت الشمس و دخل اللیل“
ترجمہ: یعنی جب روزہ دار کے افطار کا وقت داخل ہوجاتا ہے، اس طور پرکہ سورج غائب (غروب) ہو جائے اوررات آجائے (تو مغرب کا وقت بھی شروع ہوجاتا ہے)۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 2، ص 520، دار الفکر، بیروت)
وقتِ افطار آثارِ صحابہ کی روشنی میں:
متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت ہے کہ وہ مغرب سے پہلے افطار کیا کرتے تھے، جو واضح ثبوت ہے کہ غروب کے بعد نمازِ مغرب سے پہلے افطار کرنا بالکل درست ہے اور در اصل غروبِ آفتاب ہی وقتِ افطار ہے۔
*مشہور تابعی حضرت ابورجاء حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق فرماتے ہیں:
”كان ابن عباس يبعث مرتقبا يرقب الشمس، فإذا غابت أفطر، وكان يفطر قبل الصلاة“
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک شخص کو اس بات پر مقرر فرماتے کہ وہ سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرے، پس جیسے ہی سورج غروب ہوتا (اور وہ شخص خبر دیتا)، تو حضرت ابن عباس رضی عنہما فورا ًافطار فرمالیتے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز ِ مغرب سے پہلے افطار فرمالیتے تھے۔ (الصیام للفریابی، ص 57، مطبوعہ ھند)
*حضرت حمید حضرت انس رضی اللہ عنہماکے بارے میں روایت کرتے ہیں:
”لم يكن ينتظر المؤذن في الإفطار وكان يعجل الفطر “
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روزہ افطار کرنے کےلیے مؤذن کا انتظار نہیں فرماتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ (سورج غروب ہونے کے بعداذان سے پہلے) جلدی روزہ افطار فرما لیتے تھے۔(الصیام للفریابی، ص 57، مطبوعہ ھند)
وقتِ افطاراجماعِ علمائے امت کی روشنی میں:
علماء کااس پر اجماع و اتفاق ہے کہ غروبِ آفتاب ہی افطار کا وقت ہے۔ جیسا کہ شارح بخاری علامہ ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری کی متذکرہ بالا روایت کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:
”أجمع العلماء أنه إذا غربت الشمس فقد حل فطر الصائم وذلك آخر النهار وأول أوقات الليل“
ترجمہ: علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب سورج غروب ہوجائے، تو روزہ دار کو افطار کرنا حلال ہو جاتا ہے اور یہ دن کا آخری حصہ اور رات کا ابتدائی حصہ ہوتا ہے۔ (شرح صحیح البخاری لابن البطال، ج 4، ص 102، مکتبۃا لرشد الریاض)
محدث کبیر حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ان الصوم ینقضی و یتم بتمام الغروب ھومما اجمعوا علیہ“
ترجمہ: روزہ غروبِ آفتاب کے ساتھ ختم اور مکمل ہو جاتا ہے، اسی پر علمائے امت کا اجماع ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 4، ص 1382، دار الفکر، بیروت)
(2) سوال میں جو یہ بات ذکر کی گئی کہ ”قرآن کریم میں افطار کا وقت ”لیل“ یعنی رات بیان کیا گیا ہے اور رات میں اندھیرا ہوتا ہے، جبکہ غروب کے وقت اندھیرا نہیں ہوتا۔“ تو عرض ہے کہ چند وجوہات کی بنیاد پر یہ بات قابلِ قبول نہیں:
*پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ غروب کے ساتھ رات شروع نہیں ہوتی، بنیادی طور پر یہ دعوی ہی درست نہیں، نہ اس پر کوئی شرعی دلیل قائم ہے، اگر قائل کے پاس اس بات پر کوئی واضح صریح غیر مؤول دلیل موجود ہو، تو پیش کرے، بچہ بچہ جانتا ہے اور لغت کی کتابوں میں بھی واضح لکھا ہے کہ سورج ڈوبنے پر رات ہوتی ہے اور یہی تعریف و حکم تفسیر، شرحِ حدیث، فقہ اور لغت کی کتابوں میں موجود ہے کہ فقہی و شرعی طور پر غروب کے ساتھ ہی رات شروع ہو جاتی ہے نیز لغت کی کتب بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں۔
حاشیہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:
”النهار عبارة عن زمان ممتد من طلوع الفجر الصادق إلى غروب الشمس وهو قول أصحاب الفقه واللغة قوله: ”إلى الغروب“ هو أول زمان بعد غيبوبة تمام جرم الشمس بحيث تظهر الظلمة في جهة المشرق وفي البخاري عنه ﷺ: ”إذا أقبل الليل من ههنا فقد أفطر الصائم“ أي إذا وجدت الظلمة حسا في جهة المشرق فقد دخل وقت الفطر أو صار مفطرا في الحكم لأن الليل ليس ظرفا للصوم“
ترجمہ: طلوعِ صبحِ صادق سے غروب شمس تک پھیلے زمانے کودن کہتے ہیں اور یہ اصحابِ فقہ و لغت کا قول ہے۔ ماتن کا قول ”الی الغروب یعنی غروب تک“ یہ سورج کا مکمل جِرم غائب ہونے کا ابتدائی وقت ہوتا ہے، اس حیثیت سے کہ مشرق کی جانب اندھیرا ظاہر ہوجاتا ہے (اگرچہ ابھی پورے آسمان پہ اندھیرا نہیں ہوتا۔)اور بخاری شریف میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے مروی ہے ”جب یہاں سے رات آجائے، تو روزہ دار روزہ افطار کرلے۔“ یعنی جب تم مشرق کی سمت حسی طور پر اندھیرا پا لو، تو افطار کا وقت داخل ہو گیا یا تم حکمی طور پر مُفطر/روزہ افطار کرنے والے ہو جاؤ گے، کیونکہ رات روزے کے لیے ظرف نہیں ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ص731، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
لغت کی مشہورکتاب لسان العرب میں ہے:
”اللیل عقیب النھار و مبدؤہ من غروب الشمس“
ترجمہ: رات دن کے فوراً بعد شروع ہوجاتی ہے اور اس کی ابتداء غروبِ شمس سے ہوتی ہے۔ (لسان العرب، ج11، ص607، دار صادر، بیروت )
اسی طرح تاج العروس میں ہے:
”الليل: ضد النهار معروف۔۔۔۔ وحده من مغرب الشمس إلى طلوع الفجر الصادق“
ترجمہ: رات دن کی ضد مشہور ہے۔۔۔۔ اور اس کی حد سورج غروب ہونے کے وقت دے لے کر طلوعِ صبح صادق تک ہے۔ (تاج العروس، ج30، ص 374، مطبوعہ دار الھدایۃ)
المحیط فی اللغۃ میں ہے:
”وا لنھار ضیاءمابین طلوع الفجر الی وقت غروب الشمس“
ترجمہ: طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ شمس تک کی روشنی/اجالے کو دن کہتے ہیں۔ (المحیط فی اللغۃ، ج 3، ص 476، عالم الکتب، بیروت)
*دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے احکام کی تشریح و تعیین کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے اقوال و افعال سے رہنمائی لینا ضروری ہے، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ایک حکم ثابت ہوجائے، تو اُس کے برخلاف کسی فرد کی کوئی تشریح وتوضیح قبول نہیں کی جا سکتی، جبکہ وقتِ افطار کے متعلق احادیث مبارکہ سے واضح طور پر بیان کیا جا چکا کہ غروبِ آفتاب کے ساتھ روزہ مکمل ہو جاتا ہے اور اب روزے دار کوافطار کا حکم ہے، لہٰذا اس کے برخلاف کسی فرد کافرد یا گروہ کا قول تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
*اور تیسری بات یہ ہے کہ شرعی طور پر رات ہونے کے لیے اندھیراہونے کوضروری قرار دینا، اسی طرح روزہ افطار کرنے کے لیے اندھیرے کو شرط قرار دینا، یہ بھی غلط وباطل ہے، اس لیے کہ شرعی طور پر غروبِ شمس سے رات کی ابتداء ہو جاتی ہے، اگرچہ ابھی مکمل طور پر اندھیرانہ چھایا ہو۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ ایک مقام پہ فرماتے ہیں:
”ثم لما بحثنا عن حقيقة الليل في قوله: ﴿ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ ﴾وجدناها عبارة عن زمان غيبة الشمس بدليل أن الله تعالى سمى ما بعد المغرب ليلاً مع بقاء الضوء فيه فثبت أن يكون الأمر في الطرف الأول من النهار كذلك۔۔۔۔ اختلفوا فی ان اللیل ماھو ؟ فمن الناس من قال آخر النھار علی اولہ فاعتبروا فی حصول اللیل زوال آثار الشمس کما حصل اعتبار زوال اللیل عند ظھور آثار الشمس ثم ھؤلاء منھم من اکتفیٰ بزوال الحمرۃ و منھم من اعتبر ظھور الظلام التام وظھور الکواکب الا ان الحدیث الذی رواہ عمر یبطل ذلک و علیہ عمل الفقھاء “
ترجمہ: پھر جب ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ ﴾ میں موجود لفظ لیل / رات کی حقیقت کے متعلق بحث کی، تو ہم نے اسے سورج غائب ہونے سے عبارت پایا، اس دلیل کی وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے روشنی باقی ہونے کے باوجود مغرب کے بعد کو رات قرار دیا، تو ثابت ہوا کہ معاملہ دن کے پہلے حصے میں بھی ایسا ہی ہے۔۔۔۔پھر اس میں اختلاف ہے کہ رات کیا ہے ؟ بعض نے کہا کہ دن کے اول کے بعد اس کا آخر رات ہے، تو انہوں نے رات آنے میں سورج کے آثار کے ختم ہونے کا اعتبار کیا ہے جیسا کہ سورج کے آثار ظاہر ہونے کے وقت رات کے ختم ہونے کا اعتبار کیا ہے، پھر ان میں سے بعض نے سرخی کے زائل ہونے کا کافی سمجھا اور بعض نے مکمل طور پر اندھیرا چھا جانے اور ستارے ظاہر ہونے کا اعتبار کیا ہے، مگر حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جس حدیث کو روایت کیا، وہ اس رائے کو باطل قرار دیتی ہے(کیونکہ ا س میں وقتِ افطار سورج غروب ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔) اور فقہائے کرام کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ (تفسیر الرازی، ج5، ص273/275، دار احیاء التراث العربی، بیروت )
پھر ایک حدیث مبارک سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اگرغروب آفتاب ہو گیا، تو افطار کر سکتے ہیں، اگرچہ ابھی آسمان پہ مکمل طور پر اندھیرا نہ چھایا ہو۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر وهو صائم فلما غربت الشمس قال لبعض القوم يا فلان قم فاجدح لنا فقال يا رسول الله لو امسيت قال انزل فاجدح لنا قال يا رسول الله فلو امسيت قال انزل فاجدح لنا قال إن عليك نهارا قال انزل فاجدح لنا فنزل فجدح لهم فشرب النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال إذا رايتم الليل قد اقبل من ها هنا فقد افطر الصائم“
ترجمہ: ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا روزہ تھا، جب سورج غروب ہو گیا، تو حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ایک صحابی سے فرمایا کہ اے فلاں! میرے لیے اٹھ کے ستو گھولو۔ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! تھوڑی دیر ٹھہر جاتے /ابھی دن باقی ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا: اتر کر ہمارے لیے ستو گھولو۔ اس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ! تھوڑی دیر ٹھہر جاتے /ابھی دن باقی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی حکم دیا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھولو۔ انہوں نے عرض کی کہ ابھی دن باقی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ پھر فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھولو۔ چنانچہ وہ اترے اور ستو گھولا، رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ستو نوش فرمایا۔ پھرارشاد فرمایا: جب تم دیکھ لو کہ رات اس ( مشرق )کی طرف سے آ گئی، تو روزہ دار کو چاہیے کہ افطار کر لے۔ (صحیح بخاری، ج 3، ص 36، رقم الحدیث: 1955، دارطوق النجاۃ، بیروت )
صحابی کے الفاظ ”إن عليك نهارا “ یعنی ابھی دن باقی ہے۔ اس کے تحت علامہ شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”لتوھمہ ان ذلک الضوء من النھار الذی یجب صومہ“
ترجمہ: صحابی کو یہ وہم ہوا کہ اس وقت جو روشنی دکھائی دے رہی ہے، یہ دن کی روشنی ہے، جس میں روزہ رکھنا/مفسداتِ صوم سے بچے رہنا واجب ہوتا ہے (جبکہ وہ غروب کے بعد دکھائی دینے والی روشنی تھی)۔ (شرح صحیح المسلم للنووی، ج 1، ص 211، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
(3) حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما غروب آفتاب کے بعد نمازِ مغرب ادا کر کے افطار فرمایا کرتے تھے۔ اس روایت سے قائل کا مدعا ہرگز ثابت نہیں ہو رہا ہے، کیونکہ قائل کے نزدیک غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا درست نہیں، جبکہ اس روایت میں ایسے کوئی الفاظ نہیں، جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا درست نہیں، اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ غروب کے فوراً بعد افطار کرنا لازم و واجب نہیں ہے، اگر کوئی مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد افطارکرے، تو بھی جائز ہے ہمارے دعوے کی دلیل یہ ہے کہ ان حضرات صحابہ کرام کا عام معمول یہی تھا کہ مغرب سے پہلے افطار کر لیتے تھے، لیکن کبھی کبھار مغرب کے بعدبھی افطار فرما لیتے تاکہ لوگ مغرب سے پہلے افطار کو لازم و واجب نہ سمجھ لیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
”أن عمر وعثمان كانا يصليان المغرب إذا رأيا الليل كانا يفطران قبل أن يصليا“
ترجمہ: حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما جب رات کی تاریکی دیکھتے، تو نما ز مغرب ادا فرماتے اور نماز سے قبل ہی روزہ افطار کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد2، صفحہ 348، مکتبۃ الرشد، الریاض)
محدث کبیرملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ان کے اس عمل کی ایک توجیہ یوں بیان فرماتے ہیں:
”یفطران بعد الصلاۃ فھو لبیان جواز التاخیر لئلا یظن وجوب التعجیل“
ترجمہ: حضرت سیدنا عمر اور حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نمازِ مغرب کے بعد افطار فرماتے، تو یہ عمل تاخیر سے افطارکرنے کے جوازکو بیان کرنے کے لئے تھا تاکہ جلدی افطار کو واجب گمان نہ کیا جانے لگے۔(مرقاۃ المفاتیح، ج4، ص 1385، دار الفکر، بیروت)
نوٹ: اس روایت کی اور بھی توجیہات بیان کی گئی ہیں، اس کے متعلق دار الافتاء اہلسنت کی طرف سے ایک تفصیلی فتوی (ریفرنس نمبر: Jtl-838) جاری کیا گیا ہے، جودار الافتاء اہلسنت کی ویب سائٹ پر بھی موجودہے، اس کے ذریعے وہ فتوی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-7571
تاریخ اجراء: 21رمضان المبارک 1446ھ22 مارچ 2025ء