مسافر پر صدقہ فطر واجب ہے؟

مسافر پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ رمضان المبارک کے آخری ایام اور عید الفطر اگر سفر کی حالت میں گزر جائیں، تو کیا اس صورت میں بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے؟ میں نے یہ سمجھ کر کہ مسافر پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوتا، ادا نہیں کیا، اب عید گزر چکی ہے، اگر واجب ہوتا ہے تو کیا اب عید گزرنے کے بعد ادا کر سکتا ہوں یا اگلے رمضان یا عید کے دن ہی ادا کرنا ضروری ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صدقہ فطر ہر ایسے آزاد مسلمان پر واجب ہوتا ہے جو حاجاتِ اصلیہ (یعنی زندگی کی بنیادی ضروریات: کھانا، پینا، رہائش گاہ، لباس، سواری وغیرہ) کے علاوہ نصاب(ساڑھےباون تولہ چاندی کی مقدار کسی بھی مال) کا مالک ہو۔ اگر مسافر  صاحبِ نصاب ہو تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے، لہذا اگر آپ عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے وقت صاحبِ نصاب تھے تو آپ پر صدقہ واجب ہوگیا، جب تک ادا نہیں کرلیتے آپ کے ذمہ بدستور واجب رہے گا، اس کی ادائیگی کےلیے اگلے رمضان یا عید کا انتظار ضروری نہیں بلکہ کسی بھی وقت ادا کر سکتے ہیں۔

تفصیل مع الدلائل درج ذیل ہے:

صدقہ فطر ہر آزاد مسلمان غنی پر واجب ہوتا ہے، پھر چاہے وہ مقیم ہو یا مسافر، متون، شروح، فتاوی کہیں بھی صدقہ فطر کے واجب ہونے کے لیے اقامت کو شرط قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی کہیں مسافر کا استثناء گزرا، متونِ معتبرہ قدوری، تحفۃ الفقہاء، مختار، ملتقی الأبحر، کنز،  یونہی الاصل لامام محمد، شرح مختصر الطحاوی للجصاص، مراقی الفلاح، حاشیہ طحطاوی، درمختار، رد المحتار، ہندیہ، بحر، نہر وغیرہ میں ہے،

والنص لکنز الدقائق: ”تجب علی کل حر مسلم ذی نصاب فضل عن مسکنہ وثیابہ وأثاثہ وفرسہ وسلاحہ وعبیدہ“

ترجمہ: ہر آزاد صاحبِ نصاب مسلمان پر صدقہ فطر واجب ہے، ایسا نصاب  جو اس کی رہائش گاہ، لباس، گھر کے سامان، گھوڑے(سواری)، ہتھیار اور غلام (یعنی حاجات اصلیہ ) سے زائد ہو۔ (کنز الدقائق، ص218، دار البشائر الاسلامیہ)

لہذا جوہرہ میں جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے اس میں فقط تین شرائط آزاد، مسلمان اور غنی ہونے کا ذکر کیا اور یہ اپنے عموم میں مقیم و مسافر دونوں کو شامل ہے، علامہ حدادی لکھتے ہیں:

”وشرطها وهي في الإنسان الحرية والإسلام والغنى۔۔۔ومن تجب علیہ وھو الحر المسلم الغنی“

ترجمہ: صدقہ فطر واجب ہونے کے لیے انسان میں شرط آزاد  ہونا، اسلام اور غنا ہے۔۔۔اور جس پر صدقہ واجب ہوتا ہے وہ آزاد غنی مسلمان ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، ج1، ص132، المطبعۃ الخیریۃ)

اور چونکہ اقامت شرط نہیں اس لیے بدائع الصنائع میں اس کی صراحت فرمائی کہ مسافر پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے:

”ومنها الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية۔۔۔بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها فكان جميع الأوقات وقتا لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر لأنها تجب وجوبا موسعا كالزكاة، وهو الصحيح“

ترجمہ: قربانی کے لیے اقامت شرط ہے تو مسافر پر واجب نہیں ہوتی کہ قربانی نہ  ہر طرح کے مال سے ادا ہوتی ہےاور نہ ہی ہر زمانے میں ادا ہوتی ہے بلکہ مخصوص حیوان سے مخصوص وقت میں ادا ہوتی ہے اور مسافر کو قربانی کے وقت ہر جگہ ایسا مخصوص جانور نہیں مل سکتا۔۔۔ بخلاف زکاۃ کے، کیونکہ زکاۃ کے وجوب کا تعلق مخصوص وقت تک نہیں ہوتا بلکہ تمام عمر ہی اس کا وقت ہے تو تمام اوقات اس کی ادائیگی کا وقت ہے، لہٰذا مسافر کے پاس فی الحال اگر کچھ نہ بھی ہو تو جب مال موصول ہوگا اس وقت ادا کرسکتا ہے، یونہی ہر طرح کے مال سے زکاۃ ادا ہوجاتی ہے تو مسافر پر زکاۃ فرض ہونا اسے حرج میں واقع نہیں کرتا، اسی طرح صدقہ فطر کا معاملہ ہے کیونکہ یہ بھی زکاۃ کی طرح وقت کے اعتبار سے وسعت کے ساتھ واجب ہوتا ہے، اور یہی صحیح ہے۔ (البدائع الصنائع، ج5، ص63، دار الکتب العلمیۃ)

صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت عمر بھر ہے، جب بھی دیا جائے ادا ہی ہوگا قضا نہیں، تو جس نے رمضان یا عید الفطر میں صدقہ فطر ادا نہیں کیا وہ بعد میں ادا کرے، امام محمد کی مبسوط میں ہے:

”قلت أرأيت الرجل ان أخر صدقة الفطر حتى مضى يوم الفطر هل يجب عليه أن يؤديها بعد ذلك قال نعم قلت فإن كان شهرا أو أكثر من ذلك قال وإن كان سنتين“

ترجمہ: میں نے عرض کی: آپ کی ایسے شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جس نے صدقہ فطر کی ادائیگی میں اتنی تاخیر کی کہ عید الفطر کا دن گزر گیا، کیا اس پر اس کے بعد بھی صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے؟ تو آپ نےفرمایا: ہاں! میں نے عرض کی: اگر ایک مہینہ یا اس سے زائد وقت گزر جائے تو؟ فرمایا: اگر چہ دو سال گزرجائیں۔ (الاصل المعروف بالمبسوط لامام محمد، ج2، ص258، طبع کراچی)

در مختار میں ہے:

”(تجب موسعا في العمر) عند أصحابناوهو الصحيح بحر عن البدائع معللا بأن الأمر بأدائها مطلق“

ترجمہ: ہمارے اصحاب کےہاں صدقہ فطر عمر کے کسی بھی حصے میں ادا کرنے کی گنجائش کے ساتھ واجب ہوتا ہے، اور یہی صحیح قول ہے، (جیسا کہ )بحر میں بدائع سے (منقول ہے) یہ علت بیان کرتے ہوئے کہ اس کی ادائیگی کا حکم (کسی مخصوص وقت کی قید سے ) مطلق ہے۔

(وهو الصحيح)کے تحت رد المحتار میں ہے:

”هو ما عليه المتون بقولهم وصح لو قدم أو أخر“

ترجمہ: اسی پر متون ہیں جیسا کہ ان كا قول ہے اگر کسی نے صدقہ فطر عید الفطر سے پہلے یا بعد میں دیا تو جائز ہے۔

(مطلق) کے تحت ہے:

”أي عن الوقت فتجب في مطلق الوقت وإنما يتعين بتعيينه فعلا أو آخر العمر، ففي أي وقت أدى كان مؤديا لا قاضيا كما في سائر الواجبات الموسعة غير أن المستحب قبل الخروج إلى المصلى“

ترجمہ: یعنی وقت سے مطلق ہے، توکسی مخصوص وقت کی قید (کے بغیر)کسی بھی وقت ادا کرنا واجب ہے، وقت کا تعین یا تو دینے والے کی ادائیگی سے ہوگا یا عمر کا آخری حصہ متعین ہوجائےگا، تو زندگی میں جس وقت بھی صدقہ فطر دے، ادا کرنے والا کہلائے گا قضا کرنے والا نہیں، جیسا کہ سبھی ایسے واجبات میں ہوتا ہے جن میں وسعت ہوتی ہے، ہاں !مستحب یہ ہے کہ عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کرے۔ (در مختارمع رد المحتار، ج2، ص358، 359، دار الفکر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0550

تاریخ اجراء: 11شوال المکرم1446ھ/10اپریل2025ء