
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کی عمر تقریبا65 سال کے قریب ہے، وہ شوگر، بلڈپریشر وغیرہ بیماریوں کے مریض ہیں، وہ اسی وجہ سے پچھلے کئی سالوں سے،سال کے کسی حصے میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتے، میں نے سنا ہے کہ جو مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے اس کا فدیہ نہیں ہوتا،بلکہ وہ بیماری کے دور ہونے کا انتظارکرے اورجب بیماری دورہوجائے تو ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے، یا سال کے ان دنوں کا انتظار کرے جن دنوں میں یہ بیماری کے باوجود روزوں کی قضا کرسکے ،سوال یہ ہے کہ اگرمیرے والد صاحب انہیں بیماریوں کی وجہ سے سال کے کسی حصے میں بھی روزے نہ رکھ سکیں اور اسی حالت میں شیخ فانی کے درجے تک پہنچ جائیں یا ان کا انتقال ہوجائے، تو کیا اب ان کے پچھلے چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سوال میں بیان کی گئی صورت کے مطابق آپ کے والد صاحب کو اگر اتنا موقع ملا تھاکہ ان (شرعی عذر کےسبب چھوڑے جانے والے) روزوں کی قضا کرسکتے تھے،مگر نہیں کی،تو اب شیخ فانی ہونے کی صورت میں ان پر قضا روزوں کا فدیہ دینا ہوگا۔ ہاں! اگراتنا موقع بھی نہ ملا(کہ ان روزوں کی قضا کرتے)، تو اب شیخ فانی ہونے یا انتقال ہونے کی صورت میں ان پرروزوں کی قضا اور فدیہ لازم نہیں ۔ البتہ یاد رہےکہ فدیہ والی صورت میں فدیہ دینےکے بعد اگر اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھا جاسکتا ہو،تو یہ فدیہ نفل ہو جائے گا اور روزوں کی قضا لازم ہو گی۔
نوٹ: ایک روزےکا فدیہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے اور ایک صدقہ فطر کی مقدار تقریباً 1920 گرام (یعنی دو کلو میں اَسّی گرام کم) گندم، آٹا یااس کی رقم ہے۔
ایسا شخص جسےروزوں کی قضا کا موقع ملا، مگر قضا نہ کی اور مرض الموت میں پہنچ گیا، تو وہ فدیہ دے، جیسا کہ بدائع الصنائع اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
و النظم للآخر: فإن برئ المريض أو قدم المسافر، و أدرك من الوقت بقدر ما فاته فيلزمه قضاء جميع ما أدرك فإن لم يصم حتى أدركه الموت فعليه أن يوصي بالفدية كذا في البدائع
یعنی اگر مریض شفا یاب ہوگیا تھا یا پھر مسافر سفر سے لوٹ آیا تھا اور اس نے روزے کی قضاء کرنے کے وقت کو بھی پالیا تھا، تو اس صورت میں ان تمام چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء اس کے ذمہ لازم ہوگی، پس اگر اس نے روزے نہ رکھے یہاں تک کہ اسے مرض الموت نے آلیا، تو اب اس پر لازم ہے کہ وہ ان روزوں کے فدیہ کی وصیت کرے،جیساکہ بدائع میں ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الصوم،جلد 01، صفحہ 207، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”جتنے روزے فوت ہوگئے، اُن کی قضا رکھے، کفارہ کی کچھ حاجت نہیں، نہ فدیے کی ضرورت۔“ (فتاویٰ امجدیۃ، جلد 01، صفحہ 396، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)
اِس عبارت کے حاشیہ پر فقیہِ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1421ھ / 2000ء) لکھتے ہیں:”جتنے روزے ذمہ ہیں، جب تک اُس کو قوت ہو، فرض ہے کہ ان کی قضا کرے ، قوت ہوتے ہوئے اُن کا فدیہ ادا کرنا کافی نہ ہوگا۔ جب روزے رکھنے کی قوت نہ رہے اور نہ اس کی امید ہو کہ آئندہ قوت ہو گی، تو فدیہ ادا کرنے کی اجازت ہے۔“ (فتاویٰ امجدیۃ، جلد 01، صفحہ 396، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)
اور اگر عذر شرعی کی وجہ سےروزوں کی قضا کا موقع نہ ملے، تو اس پرقضا وفدیہ لازم نہیں، جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:
لو فاته صوم رمضان بعذر المرض أو السفر ولم يزل مريضا أو مسافرا حتى مات لقي الله ولا قضاء عليه، لأنه مات قبل وجوب القضاء عليه
ترجمہ: اگر کسی سے بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوٹ گئے اور وہ برابر بیمار یا مسافر ہی رہا یہاں تک کہ فوت ہوگیا ،تو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر قضا نہیں ہوگی، کیونکہ مرنے سے پہلے قضا اس پر واجب ہی نہیں ہوئی تھی۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 103، مطبوعہ دار الكتب العلمية)
اسی طرح صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”اگر یہ لوگ اپنے اُسی عذر میں مر گئے، اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے، تو ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں۔“ (بھارشریعت، جلد 01، صفحہ 1005، مکتبہ المدینہ، کراچی)
فدیہ دینے کے بعد اگر طاقت لوٹ آئے، توفدیہ نفل ہوجائے گا اور قضا واجب ہوگی۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
و لو قدر علی الصیام بعد ما فدی بطل حکم الفداء الذی فداہ حتی یجب علیہ الصوم ھکذا فی النھایۃ
یعنی مریض اگر فدیہ دینے کے بعد روزوں پر قادر ہوجائے، تو وہ جو فدیہ دے چکا اس کا حکم باطل ہوجائے گا، یہاں تک کہ اس پر روزہ رکھنا واجب ہوگا، ایسا ہی نہایہ میں مذکور ہے۔(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الصوم، جلد 01، صفحہ 207، مطبوعہدار الفكر بيروت)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے، تو فدیہ صدقہ نفل ہوکر رہ گیا ان روزوں کی قضا رکھے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 01، صفحہ 1006، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
صدقہ فطر کی مقدار کے متعلق صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روزبروز کمزور ہی ہوتا جائے گا، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اُس میں اتنی طاقت آنے کی اُمید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا، اُسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورہر روزہ کے بدلے میں فدیہ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھاناکھلانا اس پرواجب ہے یا ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دیدے۔“ (بہارشریعت، جلد 01، صفحہ 1006، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0067
تاریخ اجراء: 02 ربیع الاول 1447ھ/ 27اگست 2025ء