عبد الہادی نام رکھنا کیسا؟

بچے کا نام عبد الہادی رکھنا

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

عبد الہادی نام رکھنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

"ہادی" اللہ تبارک وتعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک نام ہے، یوں عبد الہادی کا مفہوم ہوا "اللہ پاک کا بندہ" لہذا یہ نام رکھنا درست ہے۔

القاموس الوحید میں ہے ”الہادی: اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں سے ایک نام، ہادی برحق۔ (2) راہبر، راہنما۔“ ( القاموس الوحید، صفحہ1752، مطبوعہ: کراچی)

البتہ! بہتر یہ ہے کہ اولا بیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں کیونکہ حدیث پاک میں نام محمد رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمد رکھنے کی ہے۔ اور پھر پکارنے کے لیے "عبدالہادی" نام رکھ لیں۔

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“

 ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن“

 ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر : WAT-4428

تاریخ اجراء : 21جمادی الاولی1447 ھ/13نومبر2025 ء