
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
بچی کا نام تَطْہِیر رکھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
"تطہیر" نام رکھنا جائز ہے، اس کا لغوی معنی ہے: "پاک کرنا۔ "جب یہ کسی بچی کا نام رکھا جائے گا تو اس کا معنی ہوگا: "پاک کرنے والی یا پاک کی ہوئی۔ "یہ نام رکھنا شرعاً اگرچہ جائز ہے لیکن بہتریہ ہے کہ بچی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات،بیٹیوں، صحابیات رضی اللہ عنھن اور نیک خواتین کے نام پر رکھا جائےکہ حدیث پاک میں اچھے لوگوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے، نیز امید ہے کہ اچھے نام کی برکت اور ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی بچی کےشامل حال ہو گی۔
القاموس الوحید میں ہے
”طہَّر الشیئَ بالماء
وغیرہ: پانی وغیرہ سے دھو کر صاف کرنا یا پاک کرنا۔“ (القاموس الوحید، صفحہ 1017، مطبوعہ کراچی)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4136
تاریخ اجراء: 25 صفر المظفر 1447ھ / 20 اگست 2025ء