باسل نام رکھنا کیسا؟ اور باسل نام کا مطلب

بچے کا نام باسل رکھنا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا بچے کا نام "باسل" رکھ سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

"باسِل" کا معنیٰ ہے ؛ "جری، بہادر۔ "پس معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز ہے۔ تاہم!   بہتریہ ہے کہ اولاً بیٹے کانام صرف "محمد" رکھیں کیونکہ حدیث پاک میں نام محمد رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، پھر پکارنے کے لئے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام یا صحابہ کرام علیہم الرضوان یااولیا وصالحین کے ناموں میں سے کسی کے نام پرنام رکھا جائے، کہ حدیث پاک میں نیکوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے، اوراس سےامیدہے کہ نیک لوگوں کی برکتیں بچے کو نصیب ہوں گی۔ 

القاموس  الوحید میں  ہے ”الباسِل:جری، بہادر۔“ (القاموس الوحید، صفحہ 166، مطبوعہ کراچی)

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا  لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“

 ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا  پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن“

 ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے  اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث:2328، دار الكتب العلمية،  بيروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے  ہیں : ” انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت،  جلد3، حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4165                                                                                                                                 

تاریخ اجراء: 02 ربیع الاول1447 ھ/27اگست 2520 ء