دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا بچی کا نام ایلاف رکھ سکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عربی لغت میں لفظ "ایلاف" مصدر ہے، جس کا معنی ہے: "مانوس ہونا، کسی کومانوس بنالینا، وغیرہ" لہذا اس اعتبار سے بچی کا نام ایلاف رکھنا جائز ہے۔ البتہ !بہتر یہ ہے کہ بچی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات، صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور دیگر نیک خواتین میں سے کسی کے نام پر رکھا جائے کہ حدیث پاک میں اچھے لوگوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، نیز امید ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی بچی کے شامل حال ہو گی۔
القاموس الوحید میں ہے ”آلف الشیء: مانوس ہونا۔ آلف فلانا: کسی کومانوس بنالینا“ (القاموس الوحید، صفحہ 131، مطبوعہ: لاہور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد3، حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4519
تاریخ اجراء: 17 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 09 دسمبر 2025ء