اقرار نام رکھنا نیز اسکا مطلب

اقرار نام رکھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اقرار نام رکھنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اقرار کا معنی ہے: "قبول، اعتراف، بیان اور منظور وغیرہ۔" یہ نام رکھنا جائز ہے۔

فیروز اللغات میں ہے "اقرار: ہاں۔ ہامی۔ قبول۔ منظور۔ قول وقرار۔ عہد و پیمان۔" (فیروز اللغات، صفحہ 110، فیروز سنز، لاہور)

القاموس الوحید میں ہے ”الاقرار: اقرار۔ اعتراف، بیان، ڈکلریشن۔" (القاموس الوحید، صفحہ 1295، مطبوعہ کراچی)

البتہ !بہتر یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان اورصالحین میں سے کسی کے نام پر نام رکھا جائے کہ حدیث پاک میں نیک لوگوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور امید ہے کہ نیک ہستیوں کے ناموں پر نام رکھنے سے صاحبِ نام کی برکت بچے کے شاملِ حال ہو گی۔

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے

تسموا بخياركم

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4264

تاریخ اجراء: 03 ربیع الآخر 1447ھ / 27 ستمبر 2025ء