دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا بچی کا نام "مہرمہ" رکھنا جائز ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مہرمہ نام رکھنا جائز ہے۔ البتہ! بہتر یہ ہے کہ بچی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات، بیٹیوں، صحابیات رضی اللہ تعالی عنھن اور نیک خواتین کے نام پر رکھا جائے کہ حدیث پاک میں اچھے لوگوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، نیز امید ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کی برکت بچی کے شامل حال ہو گی۔
تفصیل یہ ہے کہ "مہرمہ" دو لفظوں (مہر اور مہ) کا مجموعہ ہے۔ مہر کا مطلب:" محبت، دوستی، الفت، پیار، شفقت، سورج ہے۔" اورمہ کا مطلب:"چاند "ہے۔ اس لحاظ سے ”مہر مہ“ کا ایک معنیٰ ہوگا: "سورج چاند"۔ لہذا یہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
فیروز اللغات میں ہے ”مہر: محبت۔ حب۔ دوستی۔ الفت۔ پیار۔ شفقت۔۔۔ آفتاب۔ سورج۔ شمس“ (فیروز اللغات، صفحہ 1387، فیروز سنز، لاہور)
اسی میں ہے ”مہ: ماہ کا مخفف۔ چاند“ (فیروز اللغات، صفحہ 1385، فیروز سنز، لاہور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4447
تاریخ اجراء: 25 جمادی الاولٰی 1447ھ / 17 نومبر 2025ء