
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا میں اپنے بچے کا نام محمد صارم رکھ سکتا ہوں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صارم کا ایک معنی ہے: ”بہادر آدمی“، لہٰذا یہ نام رکھنا جائز و درست ہےاوراس کے ساتھ لفظ محمدبھی لگانا،درست ہے۔
فیروز اللغات میں ہے ”صارِم: (1) کاٹ کرنے والی تلوار، (2) بہادر آدمی۔“ (فیروز اللغات، صفحہ 907، فیروز سنز، لاھور)
البتہ! بیٹے کا نام رکھنے کے حوالے سے بہتر یہ ہے کہ اولاً بیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں نام محمد رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمد رکھنے کی ہے۔ اور پھر پکارنے کے لیے ساتھ میں کوئی نام مثلاً صارم رکھ لیجیے۔
محمد نام رکھنے کی فضیلت:
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة
ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)
رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے
قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن
ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے ” بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4210
تاریخ اجراء: 18ربیع الاول1447ھ/12ستمبر2025ء