کرنسی کی خرید و فروخت کا شرعی حکم

کرنسی کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بس اسٹاپ پر جو لوگ کھلے پیسے دیتے ہیں وہ 100 روپے کے نوٹ لے کر 90 روپے کے سکے دیتے ہیں، کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ کہیں یہ سود تو نہیں ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

100 روپے کے نوٹ لے کر 90 روپے کے سکے دئیے جائیں چاہے یہ لین دین دونوں طرف سے نقد ہو یا ایک طرف سے ادھار اور ایک طرف سے نقد ہو یہ دونوں صورتیں جائز ہیں اس میں سود نہیں ہے، کیونکہ جب 100 روپے کے نوٹ کے بدلے میں 90 روپے کے سکے دئیے جائیں گے تو اس میں نہ تو جنس ایک ہے اور نہ ہی قدر پائی جارہی ہے تو کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہوئے۔ جیسا کہ دُرِّ مختار میں ہے:

وَاِنْ عَدِمَا حَلَّا لِعَدَمِ الْعِلَّۃِ فَبَقِیَ عَلٰی اَصْلِ الْاِبَاحَۃِ

ترجمہ: اگر قدر وجنس دونوں نہ ہوں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہیں، علت کے نہ پائے جانے کی وجہ سے، تو بیع اپنی اصلِ اباحت پر باقی رہے گی۔ (در مختار، 7/422)

لیکن یہ ذہن میں رہے کہ یہ حکم نوٹ کے بدلے سکوں کا تھا کہ اس میں ایک طرف سے ادھار جائز ہے اگر 100 روپے کے نوٹ کے بدلے میں 90 روپے کے نوٹ دیئے جائیں تو یہ اس وقت جائز ہوگا جب دونوں طرف سے نقد ہو، کسی طرف سے ادھار نہ ہو، اگر کسی ایک طرف سے بھی ادھار ہوگا تو یہ جائز نہ ہوگا کیونکہ اس میں جنس ایک ہے لیکن قدر نہیں پائی جارہی تو اس صورت میں اگرچہ کمی بیشی جائز ہے لیکن ادھار جائز نہیں ہے۔ جیساکہ دُرِّمختار میں ہے:

وَ اِنْ وُجِدَ اَحَدُھُمَا اَیِ الْقَدَرُ وَحْدَہُ اَوِ الْجِنْسُ وَحْدَہُ حَلَّ الْفَضْلُ وَ حَرُمَ النَسَاءُ

ترجمہ: اور اگر قدر وجنس میں سے کوئی ایک چیز پائی جائے یعنی صرف قدر پائی جائے یا صرف جنس پائی جائے تو اب کمی بیشی جائز ہے اور ادھار حرام ہے۔ (درمختار، 7/422)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2017ء