
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورتوں کا نوکری کرنا کیسا ہے؟ کیا شریعتِ اسلامیہ عورتوں کو نوکری کرنے کی اجازت دیتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شریعتِ اسلامیہ خواتین کو پانچ (05) شرائط کے ساتھ نوکری کرنے کی اجازت دیتی ہے، اگر ان پانچ شرائط میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو عورت کو نوکری کرنے کی اجازت نہیں۔ وہ شرائط یہ ہیں: (1) کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ سِتر کا کوئی حصّہ چمکے (2) کپڑے تنگ و چُست نہ ہوں جو بدن کی ہیئت ظاہر کریں (3) بالوں یا گلے یا پیٹ یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہر نہ ہوتا ہو (4) کبھی نامحرم کے ساتھ خفیف دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو (5) اس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں مظنّۂ فتنہ نہ ہو۔
لہٰذا اوّل تو ان پانچ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک بھی کم ہے تو عورتوں کا نوکری کرنا حرام ہے۔ ان پانچ شرائط کے ساتھ ساتھ سب سے اہم معاملہ ہے عورت کا مردوں سے فاصلہ بنائے رکھنا۔ اگر کوئی عورت برقعہ بھی پہن کر آجائے لیکن وہ مردوں سے بے تکلف ہوجائے تو خود کو فتنہ میں پڑنے سے روک نہیں سکتی۔ لہٰذا اجنبی مردوں سے بے تکلفی بالکل اختیار نہ کی جائے، نہ ہی اپنی زینت ان پر ظاہر کی جائے اور اگر کسی جگہ پر اس کی عزت پر ذرا بھی حرف آتا ہو تو اس سے حفاظت کی مکمل تدبیر کی جائے اور اگر حفاظت ممکن نہ ہو تو نوکری چھوڑنے کو ترجیح دی جائے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2018ء