
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لو گ مُردہ جانور کی کھال اُتار کر بیچ دیتے ہیں ان کا کھا ل اُتارنا اور اس کو بیچنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں کھال اُتار کر اگر دَباغَت کے بعد بیچتے ہیں تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔ اعلیٰ حضر ت امامِ اَہلِسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوا ل ہوا کہ کھا لِ مردہ کا بیچنا جا ئز ہے یا نہیں؟ اس کا جواب کچھ یوں ارشاد فرمایا: ’’کھا ل اگر پکا کر یا دھوپ میں سکھا کر دباغت کر لی جائے تو بیچنا جائز ہے لِطَھَارَتِہٖ وَ حِلِّ الْاِنْتِفَاعِ (بسبب اس کی طہارت کے اور اس سے نفع کے حلا ل ہو نے کی وجہ سے) ورنہ حرام و باطل ہے لِاَنَّہٗ جُزْءُ مَیِّتٍ وَ بَیْعُ الْمَیْتَۃِ بَاطِلٌ (اس لئے کہ وہ مردار کی جُز ہے اور مردار کی بیع باطل ہے)۔‘‘(فتاوی رضویہ، 17/161)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2018ء